میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندہندوؤں کی نفرت

مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندہندوؤں کی نفرت

ویب ڈیسک
منگل, ۲۳ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، بے روزگاری، لاقانونیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے، یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ اس کے بقا کیلئے بھی خطرناک ہے۔ مودی اور اس کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ یہاں ہر شخص خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں مبینہ طور پر ایک مسلمان طالب علم کو ہندو لڑکی سے بات کرنے کے الزام میں انتہاپسندوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔مسلمان نوجوان ایک لڑکی سے کتابوں کے متعلق بات کر رہا تھا جب انتہاپسندوں کا ایک گروہ اسے سائیڈ پر لے گیا، تھپڑ مارے اور بانسوں کے ذریعے مارپیٹ کی۔ تشدد کا نشانہ بننے والا مسلم نوجوان کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہا ہے۔ملزمان نے مارپیٹ کے بعد شہباز کو دھمکایا کہ وہ کسی کو معاملے کا نہ بتائے اور دوسری جانب لڑکی اور اس کے اہلخانہ پر دباؤ ڈال کر ان سے ہراساں کیے جانے کی شکایت درج کروائی۔ کھنڈوا کی کوتوالی پولیس نے شہباز کی مدعیت میں مقدمہ تو درج کر لیا ہے لیکن ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف بھارتی سرکار اور انتہا پسند ہندو ایک ہیں۔ غریب اور بے قصور مسلمانوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ جان و مال دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مودی کے پہلے دور 2014 سے لے کر اب تک مسلمانوں کو تنگ کرنے کے بہت سے بہانے گھڑے گئے۔ کبھی گھر واپسی مہم ، کبھی لو جہاد، کبھی سی اے اے تو کبھی این آر سی کے ذریعے انہیں تنگ کیا گیا۔ اب مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہتھکنڈہ ہجوم زنی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اب تک تقریباً 250 مسلمان اسی ہجوم زنی اور ہجومی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں مگر قانون بے بس ہے اور ایسے سماجی مجرمان کو سزا دینے سے قاصر ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو کبھی بھی اور کسی بھی وقت آپ پر جھوٹا الزام لگا کر آپ کو ہجوم زنی کا شکار بنا لیا جائے گا اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔ کوئی پولیس، کوئی قانون ان مجرموں ، درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر قانون اپنا کام مؤثر طریقے سے کرتا تو ماب لنچنگ کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔
ہریانہ کے پانی پت میں اخلاق سلمانی نام کے نوجوا ن کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ اخلاق سلمانی کی حالت ابھی بھی خطرے میں بتائی جارہی ہے اور اسے چندی گڑھ کے پی جی آئی میں داخل کرایا گیا ہے۔ اخلاق سلمانی کے بھائی اکرام سلمانی کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے کاروبار ختم ہونے کے سبب اخلاق سلمانی گزشتہ ماہ روزگار کی تلاش میں ریاست ہریانہ کے پانی پت گیا تھا جہاں پر تھک کر ایک پارک میں بیٹھ گیا۔ اسی دوران کچھ ہندونوجوان نشے کی حالت میں پارک میں آئے اور اس کے ساتھ مارپیٹ کرنے لگے۔ جب اخلاق نے کچھ مزاحمت کی تو اس کو زدو کوب کیا اور اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا اور مردہ سمجھ کر ریلوے ٹریک پر پھینک کر فرار ہوگئے۔ صبح ہونے پر کسی راہ گیر کی مدد سے اخلاق سلمانی کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسی طرح یوپی کے بریلی میں 32 سالہ مسلم نوجوان باسط علی کو انتہا پسندوں کے ہجوم نے چوری کے شک میں درخت سے باندھ کر بری طرح زدوکوب کیا۔ بعد میں اس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ باسط علی کی ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ چند لوگوں نے اس کے دونوں ہاتھ درخت سے باندھ دیے ۔زدو کوب کے درمیان وہ مدد کی فریاد بھی کر رہا ہے مگر وہاں موجود لوگ مسکرا کر آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ مظلوم کے پاس ضرور آئے مگر صرف ویڈیو بنا اور تصاویر کھینچ کر واپس چلے گئے۔ باسط کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ادھر پڑوسیوں نے کہا کہ ان کا سامان مل گیا ہے لہذا وہ پولیس میں شکایت درج نہیں کروانا چاہتے ۔لیکن باسط کو ہجوم نے اتنا مارا تھا کہ اس نے ایک گھنٹے بعد ہی دم توڑ دیا۔
گاؤ ماتا کے بہانے بھارتی شہر گڑگاؤں میں گائے کے تحفظ کی نام نہاد تنظیم کے درجنوں شدت پسند کارکنوں نے بھینس کا گوشت لے جانے والے مسلمان نوجوان لقمان کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا۔جب لقمان کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اس وقت سکیورٹی اہلکاربھی وہاں موجود تھے تاہم دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔نہتے لقمان کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہتھوڑے مارے گئے اور پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کو اذیت دی گئی۔ جب اس کی حالت غیر ہوگئی تو پولیس نے مداخلت کی اور اسے ہسپتال منتقل کردیا اور ایک بار پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے شدت پسندی کو ریاستی تحفظ فراہم کردیا۔
شدت پسند بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں نے بھارت میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پرجھوٹے الزامات اور وحشیانہ تشدد بھارت میں معمول بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں جو مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے گئے، کیا ان کے وارثان کو اب تک کوئی انصاف ملا؟ کیا بھارت کا انصافی سسٹم بالکل اپاہج ہو چکا ہے؟ بھارت کے مہذب اور عزت دار شہریوں کے ساتھ بدسلوکی، ناانصافی، ظلم اور تشدد کب تک کیا جائے گا اور یہ کس کے اشارے یا شہ پر کیا جا رہا ہے ۔ مجرموں کے خلاف ایمانداری سے منصفانہ کارروائی کا جو حلف برسراقتدار لوگوں اور پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں نے لیا ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کب تک ہوتی رہے گی؟
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں