نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے
شیئر کریں
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے لاہور کا دورہ کیا جس کے دوران انھوں نے جناح ہاؤس کا بھی جائزہ لیا۔آرمی چیف نے کور ہیڈ کوارٹر میں افسران اور سپاہیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج عوام سے ہی اپنی قوت حاصل کرتی ہے اور دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔آرمی چیف نے کہا کہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن دشمن کی ایسی کوششوں کو قوم کی مدد سے شکست دی جائے گی۔
ایسے اشتعال انگیز بلووں کا ایک فوری اقدام تو اس جلاؤ گھیراؤ میں براہ راست ملوث افراد کے خلاف ملکی آئین و قوانین کے تحت کارروائی ہوتی ہے،اور آرمی چیف کے مطابق اس عمل کا آغاز کیا جا چکاہے اور جو نوجوان جلاؤ گھیراؤ کے اس قابل مذمت کام میں براہ راست شریک تھے فوجی عدالتوں کے ذریعے انھیں آرمی چیف کے بیان کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں گی۔ایسے اشتعال انگیز بلووں میں شریک لوگوں کو سخت سزائیں دینے کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن ملک کی دائمی سلامتی اور استحکام کیلئے ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت فکری تجزیاتی تحقیق یہ ہو کہ ہمارا جفاکش پاکستانی۔ دہشت گردی کا شکار نوجوان۔ غربت اور بے روزگاری کے تھپیڑے سہتا جواں سال پاکستانی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہتا پڑھا لکھا نوجوان اس انتہا کی طرف کیوں گیا ہے۔ اس کیلئے یقینا عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد سے گزشتہ ایک سال کی تقریروں پر بھی غور کرناہوگا،لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ عمران خان کی تندوتیز اور تلخ باتوں کو نوجوانوں نے اتنی جلدی قبول کیوں کیا اور 9 مئی کو ایسے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا گیا جس کے بارے میں خود عمران خان نے بھی نہ سوچا ہوگا۔9 مئی کے واقعات کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ یک سال کی اکساہٹ یا جھنجھلاہٹ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے اسباب جاننے کے لئے ہمیں گزشتہ کم از کم 3 عشروں کے سول اور فوجی حکمرانوں کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ 20 سے 40 سال تک کے یہ پاکستانی انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ پلے بڑھے۔ ان کے ماں باپ بھی پاکستانی ہیں۔ نہ جانے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں گی۔ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھوں نے حق کا ساتھ دینے کے جرم میں کوڑوں کی سزا پائی اور قیدوبند کی سزائیں بھی کاٹیں،ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھیں ان کے اداروں کے دولت کے پجاری مالکان کو ہدایت دے کر ملازمتوں سے فارغ کیاگیا اور پھر ان پر باعزت روٹی کمانے کے تمام دروازے بند کردئے گئے اگر کوئی ادارہ انھیں ملازمت دینے کی جرات کرتا تو اس کے اشتہار بند کردیے جاتے اور انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کے کھاتے کھول کر اسے اس صحافی کو فارغ کرنے پر مجبور کیا جاتاجو عزت کے ساتھ قلم کی مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتاتھا،ان میں ان کاشتکاروں کے بچے بھی شامل ہوں گے جن کے اناج سے بھرے گوداموں کو محض حکومت وقت کی مخالفت کی پاداش میں نذر آتش کرکے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کرلئے جاتے تھے،ظاہر ہے کہ یہ لاوا ایک دن میں نہیں پکا،وقت کرتاہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ریاست کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ان غصے اور محرومیوں کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کے دلوں میں ابلتے ہوئے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے ان کی اصلاح کرے نہ کہ انہیں مستقل تخریب کار بنادیا جائے۔
پاک فوج نے گزشتہ کئی برس سے انتہاپسندی Deradicalisation کے خاتمے کا ایک بہت اچھا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں جھانکا جائے، یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کے ذہنوں پر ابھی تک اپنے والد یادادا کو کوڑے لگائے جانے کے نقش تو موجود نہیں ہیں،ان نوجوانوں کے ذہن میں اپنے باپ یا دادا کو بلاوجہ بے روزگار کرانے جانے کے سبب گھر میں ہونے والے فاقوں کے اثرات ابھی تک موجود تو نہیں ہے،یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان کسی ایک یا درجن بھر تقریروں سے اتنا متاثر کیوں ہوئے کہ انھیں کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرڈالا برسوں کی منصوبہ بندی کے باوجود عام حالات میں کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں سے جو نہیں کرواسکتی تھی یہ نوجوان ان مقامات کی طرف جانے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ پھر ان محفوظ مقامات میں انہیں یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی،اور ایک ہنگامہ خیز صورت حال میں جب کچھ بھی ممکن تھا، اتنے اہم قومی اداروں اور تنصیبات کے تحفظ کے مناسب انتظات کرنے کے بجائے سرپھرے نوجوانوں کو ان تک پہنچنے کا کھلا راستہ کس حکمت عملی کے تحت فراہم کیا گیا۔پاک فوج نے ماضی میں بھی سرجریاں کی ہیں،کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کی جاچکی ہیں،بلوچستان میں بی ایل اے یعنی بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف بھی ایسے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں لیکن حقائق واضح ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کارروائی کوئی بھی سرجری نہ صرف کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے جتھے اور گروپ پیدا ہوئے جو آج تک حکومت اور ریاست کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ اس لئے کامیاب نہیں رہیں کہ بیماری کی تشخیص بھرپور نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ 13رکنی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں سے تو ایسی فکری کوشش کی توقع عبث ہے۔ کیونکہ ملک کا دائمی استحکام تو ان کی منزل ہی نہیں ہے،ان کی تمام تر توانائیاں اور کوششیں تو صرف اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو میدان سے باہر نکالا جائے،کیونکہ انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیاہے کہ عمران خان کے رہتے ہوئے انتخابات میں ان کا جیتنا محال ہی نہیں ناممکن ہے،یہی وجہ ہے کہ ان سب کی مشترکہ کوشش نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان کو جسد سیاست سے باہر نکالنا اور تاحیات نااہلی کے بعد لندن فرار ہوجانے والے نواز شریف کو دوبارہ لاکر اپنی پسند کی حکومت بنانا ہے۔ ان کی ساری فکری توانائیاں اسی مقصد کیلئے وقف ہیں مگر ہمارے اداروں۔ علما،دانشوروں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے کو معروضی انداز میں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو روکنے والے کہاں تھے۔ آگ لگانے والے تو حرکت میں تھے۔ آگ بجھانے والے کہاں تھے۔ پولیس، ایمبولینس، ریسکیو، سب کدھر تھے۔فوری قانونی کارروائی اپنی جگہ ضرور کی جائے۔ لیکن اس
کے طویل المیعاد حل کیلئے سوچنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیاجائے جس سے اس ملک کے نوجوانوں کے پہلے سے زخمی دل مزید زخمی ہوجائیں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں کے پھپولے پھوڑنے اور ان پر نمک مرچ چھڑکنے کے بجائے ان پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے،ان کو محبت سے اپنا بنانے کی کوشش کی جائے اور فوجی عدالتوں سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔سوا ل یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اقتدار سرپھرے نوجوانوں کو سخت سزائیں دلواکر دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے بجائے ان نوجوانوں کو اپنا گرویدہ اور ملک کیلئے ایک بوجھ اور مسلسل درد سر بنانے کے بجائے اپنا بنانے کی جانب توجہ دینے پر تیار ہوں گے؟