پاناما پر جے آئی ٹی کی پہلی رپورٹ پیش‘ ہم شہرت کیلئے قانون نہیں بیچتے ‘سپریم کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد (بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما فیصلے پر عملدر آمد کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ شیئر کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مناسب وقت پر رپورٹ منظر عام پر لائی جائیگی ایسا کوئی فوجداری مقدمہ بتا دیں جس میں دور ان تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کر دی گئی ہوں جبکہ ججزنے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں رپورٹ سے اختلافات نہیں ہے اس بات کا خیال رکھا جائے کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائیگا تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا ہے تو بتایا جائے عدالت اپنے حکم پر عملدر آمد کرانا جانتی ہے ۔ پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما فیصلے پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے مزید تحقیقات کےلئے قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اب تک ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی۔جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے سامنے 3 سربہمر لفافے پیش کیے گئے جن میں اب تک پاناما لیکس کے معاملے پر ہونے والی تحقیقات کی تفصیلات درج تھیں۔ججز نے سربمہر لفافوں کو کھول کر رپورٹ پڑھی اور دوبارہ لفافوں کو بند کرکے ہدایت کی کہ انہیں رجسٹرار کے پاس جمع کرادیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھنے کے بعد جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم اس پر غیر مطمئن نہیں ہیں اور ہمیں رپورٹ سے اختلاف نہیں ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم شہرت کےلئے قانون نہیں بیچتے۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھی پی ٹی آئی کی جانب سے فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عام کیا جائے تاہم جسٹس اعجاز افضل نے ان کی استدعا مستردکرتے ہوئے کہا کہ مناسب وقت پر رپوٹ منظر عام پر لائی جائےگی کوئی ایسا فوجداری مقدمہ بتادیں جس میں دوران تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کردی گئی ہوں۔ سماعت کے دوران خصوصی بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے جے آئی ٹی کو واضح طور پر کہا کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائےگا تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں۔ جسٹس عظمت نے جے آئی ٹی ارکان سے کہا کہ اگر کسی ادارے سے کوئی مسئلہ ہے یا کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا تو بتایا جائے عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانا جانتی ہے۔بعد ازاں سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔