میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد ضروری ہے!

دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد ضروری ہے!

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۳ فروری ۲۰۲۵

شیئر کریں

 

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہمیں سیاست کو پس پشت ڈال کر متحد ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، آج اتحاد وقت کا تقاضا ہے،

یہ دہشت گردوں سے مقابلے کا وقت ہے یہ سیاست کا وقت نہیں ہے،سیاست بعد میں بھی ہوتی رہے گی ۔شہباز شریف کی ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ وہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں اس حوالے سے ان کا یہ کہن ابالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پوری قوم کو بنیان مرصوص ہونا پڑے گا،اور اس مسئلے پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے،

وزیراعظم کے ان خیالات کی ہرطبقہ خیال کے لوگوں کی جانب سے یقینا تائید وحمایت کی جائے گی بشرطیکہ وزیراعظم اپنے قول کے مطابق دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیں اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے بنائے گئے قوانین کو اپنے مخالفین کو جیل میں سڑانے اور الزا م تراشی کیلئے استعمال کرنے کے سلسلے کو ترک کرکے اپوزیشن رہنماؤں پر دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات ختم کرنے اور اپوزیشن کے تمام رہنماؤں پر قائم مقدمات سے دہشت گردی کی شقات ختم کرکے ان مقدمات کو دہشت گردی کی عدالتوں سے عام عدالتوں میں منتقل کرنے کے احکامات جاری کریں ۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کا عزم ہمیشہ فولادی اور غیر متزلزل رہا ہے ،اور پاکستان کی مسلح افواج کے شیردل جوانوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، ہمارے شیردل جوانوں کی یہ قربانیاں خطے اور عالمگیر امن کی خاطر پاکستان کے عوام کے مسمم ارادے اور ثابت قدمی کی روشن دلیل ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں ملک دشمن عناصر پڑوسی ملک کے اشارے پر علیحدگی کی تحریک میں ملوث ہیں ان لوگوں کو بھارت اور افغانستان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ بھی ثابت ہوچکاہے کہ کابل انتظامیہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں اور خوارج کی نہ صرف بھر پور سر پرستی کر رہی ہے بلکہ انھیں افغانستان میں امریکہ کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے جسے دہشت گرد ہماری سیکورٹی فورسز کے خلا ف استعمال کر رہے ہیں۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔

اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغان طالبان بدستور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے اور طالبان کی حمایت سے اپنی طاقت برقرار رکھے ہوئے ہے، 2024کے دوران اس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی افغان سر زمین سے کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالرز فراہم کر رہے ہیں،اس رقم کے ذریعہ اس تنظیم نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، القاعدہ برِصغیر (AQIS) اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں مل کر ‘تحریکِ جہاد پاکستان’ (ٹی جے پی) کے بینر تلے حملے کر رہی ہیں جس سے یہ تنظیم علاقائی دہشت گرد گروپوں کا مرکز بن سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں طالبان حکومت کی پاکستان دشمنی کی تصدیق اور پاکستان میں سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے جانے والے دہشت گردوں میں افغان شہریوں کی شناخت سامنے آنے کے باوجود افغان عبوری حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستان میں معصوم لوگوں اور فوج کی سرحدوں پر قائم چوکیوں پر حملے افغانستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام جوپہلے افغان طالبان کی مہمان نوازی میں پیش پیش رہتے تھے اب حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان کے دشمن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشت گردی کی جا رہی ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں مٹھی بھروہ لالچی عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ، اسلحہ اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کل خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان سے باہر ہیں،

یہ لوگ سیکورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ 2020میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ملک میں دہشت گردی پر تقریباً قابو پا لیا تھا مگر 15اگست 2021میں افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ آنے کے بعد جب طالبان نے کابل کی جیل سے ہزاروں افراد کو رہا کیا تو دوبارہ دھماکے شروع ہو گئے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ہماری فورسز ہر دن دہشت گردی کے مکمل سدباب کے ہدف کے قریب تر جا رہی ہیں۔

ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن و امان اور سیکورٹی کی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر جیسا کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ یہ کام تنہاعسکری قوت انجام نہیں دے سکتی بلکہ عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھانا ہوگا۔ دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے تیار کردہ نیشنل ایکشن پلان میں سیکورٹی اداروں، وفاق اور صوبائی حکومتوں سب کی ذمے داریاں متعین ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکسوئی اختیارکرے اور جیسا کہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ پہلے امن قائم کرلیں، پھر سیاست بھی ہوتی رہے گی۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی ایما پر شروع کی جانے والے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 2001 سے 2023تک کم وبیش 35 کھرب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکہ تو پیشانی پر شکست کا داغ سجائے افغانستان سے واپس چلا گیا، مگر پاکستان آج تک اس کے منفی اثرات سے نجات نہیں پا سکا۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ سیاست کا وقت نہیں، متحد ہوکر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد وقت کا تقاضا ہے، امن قائم کرلیں، پھر سیاست بھی ہوتی رہے گی”۔

وزیراعظم کے ان خیالات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، مگر ضرورت اس سے آگے بڑھنے کی ہے ، وزیراعظم ایوانِ اقتدار میں موجود ہیں، اس لیے قوم کو متحد کرنے کی اوّلین ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کے تقاضے اور اتحاد کی خاطر درکار اقدامات کا آغاز اور اعلان فرمائیں،

محض زبانی نہایت عمدہ خیالات کا اظہار کردینا اور عملاً سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی بھرمار اور انہیں پسِ دیوارِ زنداں دھکیل کر ان کی ضمانتوں کی راہ روکنے کیلئے ان کے خلاف بنائے گئے مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات شامل کراکر قومی اتحاد کی توقع رکھنا نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم کو یہ سوچنا چاہئے اور عوام کو آگاہ کرنا چاہئے کہ ان کی صدارت میں ایپکس کمیٹی نے گزشتہ برس 23 جون کو ‘‘عزم استحکام آپریشن’’ کی منظوری دی تھی اور اس پر دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے اور قومی اتفاقِ رائے کی خاطر کُل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر آج تک اس کی نوبت کیوں نہیں آسکی،وزیراعظم اور ان کے مصاحبین نے اس کانفرنس کے انعقاد کیلئے کیا کوششیں کیں اور اگر کوئی کوشش کی گئی تو وہ ناکام کیوں ہوئی؟

وزیراعظم اگر واقعی اپنے قومی اتحاد و اتفاق سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے عزم میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس کے لیے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے، محض زبانی جمع خرچ اور نیک خواہشات سے مثبت اور ٹھوس نتائج کی توقع کرنا بہرحال عقل و فہم میں آنے والا معاملہ نہیں یہ بھی ایک لازمی تقاضا ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری جس سرعت سے پھیل رہی ہیں، ہمارے دفاعی ادارے یکسو ہو کر اس ناسور سے قوم کو نجات دلانے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کریں۔ موجودہ حالات میں جب کہ ہمارے دفاعی ادارے بہت سی دیگر ذمہ داریوں کو اپنے ذمہ لے چکے ہیں،

بہتر ہو گا کہ مسلح افواج ان سے فراغت پا کر خود کو دہشت گردی کے خاتمے اور ملکی دفاع کے دیگر امور تک مرکوز کریں تاکہ فوری، بہتر اور دیرپا نتائج حاصل ہو سکیں۔ اس طرح عوام اور فوج کے مابین اعتماد کا رشتہ بھی مستحکم ہو گا جو ملکی دفاعی فرائض کی ادائیگی کے لیے ناگزیر ہے۔امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم قوم کو متحد کرنے کیلئے اپنے اور اپنے مصاحبین کے قول وفعل کے تضادات کو دور کرنے کیلئے عملی اقدام کریں گے اور ہر کام میں مسلح افواج کو شامل کرنے ان کی توجہ اصل مقاصد سے ہٹانے اور توانائیاں ضائع کرنے والے اقدامات سے گریز کریں گے تاکہ مسلح افواج یکسو ہوکر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں