میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے ،منیر اکرم

مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے ،منیر اکرم

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۳ فروری ۲۰۲۰

شیئر کریں

اقوام متحدہ میں متعین پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے ،کشمیر کا مسئلہ عالمی فورمز پر اٹھاتے رہیں گے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرسکیں گے یا نہیں اس حوالہ سے کوئی واضح نہیں کیونکہ بھارت بھی ایک بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی مغرور، نظریاتی اور سخت قیادت ہے جن کو کمپرومائز کرنا سمجھ نہیں آتی ہے ،امریکہ افغانستان میں ناکام تو ہوا ہے اور 19سال سے جنگ جاری ہے اور فوجی طور پر امریکہ طالبان کو ہرا نہیں سکا ۔ان خیالات کا اظہار منیر اکرم نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے جو یکطرفہ اقدامات کئے تھے اس کے بعد ہم نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں دو دفعہ اٹھایا ہے اور سکیورٹی کونسل نے منظور کیا کہ اس مسئلہ پر بحث کرنی چاہیے اوریہ بین الاقوامی تنازعہ ہے اور جو ایجنڈا آئٹم سکیورٹی کونسل کے ایجنڈا میں 50سال ڈورمنٹ رہا تھا اس کو ہم نے دوبارہ اٹھایا ۔انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے اور انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بھی دو ، تین بیان جاری کئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس پاکستان آئے اور جب وہ کوئی بات کرتے ہیں توو ہ پورے ادارے کی نمائندگی کرتے ہیںاور انتونیو گوتیرس نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا اور جو انہوں نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے ذریعہ حل کرنا چاہئے اس سے نظر آتا ہے کہ بین الاقوامی تائید اور حمایت ہمارے کیس میں ہے اور ہم اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی آٹھ لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ کشمیر میں بیٹھی ہوئی ہے اور انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور لوگوں کو ڈرایا ہوا ہے اور بھارت کو اس پوزیشن سے ہٹانے کے لئے پوری مہم چلانی پڑے گی اور یہ ہماری مہم جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی ساکھ پر بڑا دھبہ آیا ہے اور پوری دنیا سمجھتی ہے کہ یہ زیادتی کررہے ہیں اور کشمیری عوام نے بھارتی حکمرانی کو مسترد کیا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت پر دبائو جاری رہنا چاہئے جب تک وہ اپنی پوزیشن سے ہٹتا نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب مسئلے حل ہوتے ہیں تو وہ عوام کے جوش سے ہوتے ہیں اور عوام کی مرضی اور خود مختاری سے ہوتے ہیں، کشمیری عوام کی70سے جدوجہد جاری ہے اور یہ جاری رہے گی اور یہ بالکل واضح ہے کہ بھارت کی فوج وہاں ہے اور اس کی حکومت نہیں ہے اور بھارت کو کبھی نہ کبھی ماننا پڑے گا یہ کشمیر عوام اسے چاہتی نہیں ۔ا نہوں نے کہا کہ اس طرح کے مسئلے ایک دن میں حل نہیں ہوتے ،70سال سے کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے اور ان کو یہ جاری رکھنا پڑے گی جب تک بھارت مان نہیں جاتا کہ ہم یہاں رہ نہیں سکتے اور اگر رہنا ہے تو کشمیریوں کی نسل کشی کرنا ہو گی اور دنیا بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی نہیں کرنے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں لگائے گئے کرفیو کو چھ ماہ تو ہو گئے ہیں تاہم یہ سالوں نہیں چل سکتا اور ہم اپنا دبائو جاری رکھیں گے جب تک بھارت اپنے اقدامات سے نہیں ہٹتا اور جب بھارت اپنے اقدامات سے ہٹے گا تو پھر پوری دنیا کو معلوم ہو گا اور کشمیری عوام باہر آکر کہے گی کہ ہمیں بھارت منظور نہیں ہے اور ہمیں آزادی چاہئے توپھر پوری دنیا کو نظر آئے گا کہ کشمیر ی 100 فیصد بھارت کو مسترد کرتے ہیں،ہمیں مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کا نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو کہنا چاہیئے بلکہ جو بھی لیڈر بھارت جاتا ہے ہمیں اسے یادہانی کروانی چاہئے یہ بڑا مسئلہ کھڑا ہوا ہے اوربھارت زیادتیاں کر رہا ہے اور انہوں نے 80 لاکھ لوگوں کو کھلی جیل میں رکھا ہوا ہے ، بھارت پاکستان سے سات گنا بڑا ملک ہے اس کے باوجود پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر کمپرومائز نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو ہماری اصولی پوزیشن ہے کہ رائے شماری ہونی چاہئے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا حق حاصل ہے ہم نے پر کمپرومائز نہیں کیا اور ہمارا آدھا ملک کٹ گیا پھر بھی پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن نہیں چھوڑی، ہمیں کشمیریوں پر بھی فخر ہونا چاہیئے کہ انہوں نے 70سال باقائدہ مزاحمت کی ہے اور جدوجہد کی ہے اور اب تک کررہے ہیںاور 1990سے اب تک ایک لاکھ لوگ قربانیاں دے چکے ہیں، اس قسم کی قربانیاں جب لوگ دیتے ہیں تو ان کا کاز اتنی جلدی ختم نہیں ہو سکتا ہے ۔ منیر اکرم کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو ابھی تک دنیا نے نظر انداز کیا ہے ، دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جھگڑا ہے اور اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ جنگ کہاں جا کر ختم ہو گی یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ ہم دنیا سے سالہاسال سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کشمیر کا مسئلہ دیکھیں اور اس کو حل کریں کیونکہ یہ بہت خوفناک صورتحال ہے اگر دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ ہو گئی تو اس کا نتیجہ بہت براہوسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا توجہ دے رہی ہے اور اس بات کو تسلیم کیا جارہا ہے یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت غیرذمہ دارانہ اور جنگ کی باتیں کررہی ہے کہ ہم آپ کو سات اور 10دن میں ختم کردیں گے اورہم آزاد کشمیر کو لے لیں گے ، قبضہ کرلیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ 27فروری2019کے واقعہ کے بعد بھارت کوسمجھ آجانی چاہیئے تھی کہ اگر ہم حملہ کریں گے تو پاکستان جواب دے گا، ہمارے پاس یہ قوت ہے کہ ہم صحیح طرح کا جواب بھارت کو دیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی غلط فہمی ہو گی کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی محدود جنگ کر کے اپنے ہندوتوا کے لوگوں کو خوش کر کے رکھے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی اخلاقی حمایت تو بھارت کو حاصل ہے اور امریکہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چین کو کائونٹر کرنے کے لئے بھارت اس کا پارٹنر ہے ، امریکہ نے یہ اسٹرٹیجک فیصلہ تو کر لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان متوقع امن معاہدہ اس بنیاد پر ہے کہ امریکہ کے کچھ فوجی جلدی افغانستان سے نکل جائیں گے اور کچھ رہ جائیں گے اور طالبان اس بات کی یقین دہانی کروائیں گے کہ افغانستان سے امریکہ پر کوئی حملہ نہیں ہو گا ،کوئی دہشت گردی نہیں ہو گی۔ اس معاہدہ کے بعد افغانستان کی پارٹیوں کو آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرنی ہے اور یہ مشہور ہے افغانستان کی پارٹیوں کا بڑی مشکل سے اتفاق رائے ہوتا ہے تاہم پوری دنیا کی خواہش ہے کہ وہ آپس میں صلح کریں اور افغانستان میں جاری تشدد اور جنگ کو ختم کریں،پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ افغانستان کی مختلف پارٹیاں آپس میں صلح اور مفاہمت کرسکیں گی یا نہیں کر سکیں گی۔ا نہوں نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہو گی کہ کس طرح ہم دنیا کے ساتھ شامل ہو کر افغان پارٹیوں کو سمجھائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ آپس میں مفاہمت کر لیں اور امن ہو جائے اور ایسی حکومت آئے جو وہاں سول وار کو ختم کرے ، امریکہ افغانستان میں ناکام تو ہوا ہے اور 19سال سے جنگ جاری ہے اور فوجی طور پر امریکہ طالبان کو ہرا نہیں سکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسئلے سیاسی طور پر ہی حل ہوتے ہیں جنگ تو صرف طاقت کے ٹیسٹ کا اظہار ہوتی ہے تاہم جب جنگیں ختم ہوتی ہیں تو وہ سیاسی طور پر معاہدے کے تحت ہی ختم ہوتی ہیں، سفارتکاری میں کبھی بات کرنے یا مذاکرات کرنے سے انکارنہیں کرنا چاہئے کیونکہ سفارتکاری کا مطلب ہی یہی ہے کہ کمیو نیکیشن جاری ہونی چاہئے اور جب دشمن آپس میں جنگ کرتے ہیں تو اس دوران بھی وہ آپس میں بات کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی ہمیشہ قومی مفادات کے تحت بنائی جاتی ہے ، بھارت کے مقابلہ میں بیرونی سرمایاکاری کے لئے پاکستان میں زیادہ بہتر مواقع ہیں تاہم گذشتہ15سے بھارت اور ہمارے دیگر مخالفین نے ہمیں بدنام کیا ہوا ہے اور دہشت گرد کا ہمارے اوپر دھبہ لگا ہوا اب ہم اس کو ہٹا رہے ہیں اور ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں