میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
’’پیکر ِ تکبر‘‘

’’پیکر ِ تکبر‘‘

منتظم
جمعه, ۲۳ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

خواجہ غلا م شعیب
پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ خوشی و رنج کامیابی و ناکامی اور دوسرے کئی تکلیف دہ واقعات سے بھری ہے۔ سیاست کا طالب علم اور ملکی سیاست سے دلچسپی رکھنے والا اور وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ملکی سیاسی واقعات اور حالات سے کافی واقفیت و آگاہی رکھتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں اور مختلف حکومتوں ان کے سیاسی طور طریقے بصیرت ، نالائقی اور سیاسی موگاشافیاں اور منفی نعروں کی سیاست کی خبر اور علم و معلومات کا ذخیرہ 70 سالہ ملکی تاریخ میں موجود ہے ۔ جس سے ہم کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

سیاست حقیقت میں خدمت کا راستہ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی ملکی سیاست میں وطن عزیز کے کتنے سیاسی لیڈرز یا رہبری کے دعویدار اپنے قول اور عمل سے ملک اور عوام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں؟ عوام کی شدید خواہش اور دلی تمنا ہے کہ عوام دوست اور ملک کی ترقی و خوشحالی و مضبوطی کے نعرے اور دعوے کرنے والے نہیں بلکہ حقیقی رہبران کو مل جائیں جن کا قول اور فعل ایک ہو ، جو خود اپنی نہیں بلکہ قوم اور ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو۔ اور پاکستان کے 22کروڑ عوام ان کو حقیقت میں اپنا مسیحا کہہ سکے۔ بظاہر ہمارے ملکی سیاستدانوں کے طرز عمل سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی سیاسی وکٹ پر ہی کھیلنے کو ترجیح دیئے ہوئے ہیں۔

سیاست ہو یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے سمجھدار لوگ اپنے تجربات اور واقعات سے سبق حاصل کرکے اس کی روشنی میں دُرست سمت کو جان کر کامیابی کے راستے پر قدم رکھتے ہیں۔ سیاست اور سیاسی میدان کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ سیاست کا میدان مشکل اور بڑا سفاک ہوتا ہے کسی کو بہت کچھ بلکہ سب کچھ مل جاتا ہے اور کسی کو تمام تر کوششوں ، پلاننگ، مثبت اور منفی ہتھکنڈوں ، نعرے، دھرنے، جلسے اور بلند دعووں کے باوجود وہ نہیں مل پاتا جس کی وہ شدید تمنا اور خواہش رکھتا ہے ۔ شیروانی اور سوٹ تنگ ہوجاتے ہیں۔

اس مضمون میں میرا مقصد کسی خاص سیاسی شخصیات یا شخص کے خلاف لکھنا نہیں بلکہ جو کچھ چند سالوں سے ہم اور پوری قوم دیکھ اور سن رہی ہے بلکہ بھگت رہی ہے اس تمام تر صورتحال میں دل و دماغ میں جو کچھ ہورہا ہے وہی قلم ‘ کاغذ پر تحریر کررہا ہے ۔ کوئی ناراض ہویا غصہ سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ ملکی کئی سیاسی پارٹیوں کے مرکزی قائدین اپنے غلط طور طریقوں منفی بیانات اور نعروں اور تہذیب وشائستگی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مخالفین یا مخالف کے خلاف ان کا جو طرز عمل ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ عمران خان ہویا زرداری ، نواز شریف کی مخالفت اور ان کے ساتھ اختلاف ضرور رکھو لیکن خدارا نوجوان نسل کو تہذیب و اعلیٰ اخلاق کے راستے سے تونہ بھٹکائو، سی پیک منصوبہ یا گوادر کے پروجیکٹ کے راستہ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر رکاوٹ بنواور نہ ہی تاخیر کا سبب بنو۔ یہ پروجیکٹ محمد نواز شریف کی جاگیر نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان اور 22کروڑ عوام کی ترقی و خوشحالی و مضبوطی کا روشن دروازہ ہے ۔ پاکستانی عوام ایسے کسی بھی شخص کو معاف نہیں کرے گی جن کی وجہ سے ملکی معیشت اور ترقی کو نقصان پہنچے ۔

ہمارے ملک میں ویسے ہی بااصول سیاستدانوں کا کال ہے ، شائستگی ، شرافت ، صبروبرداشت کے اعلیٰ موتیوں کے مالک سیاسی لیڈر کم ہی ہیں کاش نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے بااصو ل اور زرین سیاسی اصولوں اور اعلیٰ سیاسی قابلیت کے حامل سیاسی لیڈر آج موجود ہوتے تو پاکستان کی سیاسی فضاء اتنی زرد اور سیاہ نہیں ہوتی اور نہ ہی زہر آلودہ۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والا، اعلیٰ تہذیب یافتہ انگریزوں کے ساتھ دوستیاں اور کھیل کو د کرنے والا اور اپنے جلسوں ، دھرنوں اور پریس کانفرنسوں میں متعدد بار انگریزوں کے اچھے اخلاق اور اعلیٰ تہذیبی واقعات بیان کرنے والے شخص عمران خان نے کس حد تک خود ان پر عمل کیا؟ عمران کے اپنے عمل عوام کے سامنے ہیں اور یہ عمران کے قول و فعل میں کھلا تضاد ظاہر کرنے کو کافی ہے ۔ ان کے منفی انداز اور بدگفتاری کی وجہ سے مخالف سیاستداں ان کو جھوٹے خان، یوٹرن خان، دوغبر خان، کہتے ہیں ۔ فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی بہت کچھ آچکا ہے۔ لگتا ہے کہ عمران خان کے نزدیک پاکستان بدل گیا کا نعرہ شادیوں کی ہیٹ ٹرک ہے۔

آج ملکی کئی سیاسی حلقوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان کی مقبولیت کا گراف جس تیزی سے نیچے کی جانب چل پڑا ہے اس کی ایک بڑی وجہ ان کی گالی گلوچ، منفی اور جھوٹے دعوے کی سیاست اور ان کی اکڑ والا انداز اور خراب لب لہجہ و تکبر ہی ان کو پستی کی جانب لے جارہا ہے ۔ افسوس کہ یہ شخص عمران ان تمام باتوں اور حالات کا درست تجزیہ کرپائے اور نہ ہی اندازہ لگاسکے۔ لگتا ہے کہ وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ جس شخص کا نام عمران خان ہے وہ صر ف اور صرف اپنی ’’میں‘‘ اور اکٹر میں ’’پیکر تکبر‘‘ بنا ہوا ہے ۔ اور یہ بھول بیٹھا ہے کہ تکبر تو صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لیے ہی ہے ۔ واقعی انسان بھلکڑ ہے یاد رکھنے کی باتیں بھلادیتا ہے یا پھر یاد رکھنا ہی نہیں چاہتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں