فوجی سربراہ کا بھارت کو دو ٹوک انتباہ
شیئر کریں
فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا ہے کہ ہم ملک میں دہشت گردی کے بھارتی عزائم سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے،پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن پر مٹی والا مناور سیکٹرمیںجوانوں سے ملاقات کے دوران میں نوجوانوں کو ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنے کی تلقین کی۔ اُنہوں نے فوج کی آپریشنل تیاریوں کو سراہا۔آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاک فوج ملکی دفاع کے لیے ہر وقت تیار اور پر عزم ہے۔
پاک فوج کی تیاریوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کبھی بھی کسی طرح کے شک وشبہ میں مبتلا نہیں رہے کیونکہ پاک فوج نے ہمیشہ اور ہر نازک موقع پر پاکستانی عوام کو تحفظ اور سہولتیں پہنچانے کے لیے بھرپور اور بلاتاخیر اپنا فریضہ ادا کیاہے، پاکستان کے عوام پر جب بھی کوئی کڑا وقت پڑا ہے پاک فوج نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے فوری اپنا کردار ادا کیاہے، جس کا مظاہرہ 2005 میں ہوا ۔آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں قیامت خیز زلزلے ، پنجاب اور سندھ میںسیلاب کی تباہ کاری ہو،یا مزاروں پر دہشت گردی کے واقعات ہر موقع پر فوج کے جوان اور افسران سب سے پہلے سامنے آئے اور انھوں نے کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیرلوگوں کی جانیں بچانے انھیں محفوظ مقامات تک پہنچانے اور ان کے علاج معالجے کی ذمہ داریاں پوری کیں، یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے جوان اور افسر پوری دنیا میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور جذبے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ذوقِ شہادت سے سرشار ان جوانوں نے ہمیشہ پاک وطن کاپرچم اورپاکستانی عوام کا سربلند رکھا ہے ،ان کی اسی خوبی کے سبب یہ جوان پاک فوج کی ریڑھ کی ہڈی تصورکیے جاتے ہیں۔
فوجی سربراہ نے بالکل درست متنبہ کیا ہے کہ فوج پاکستان اور آزاد کشمیر کا دفاع کرنا جانتی ہے اور بھارت کی بلا اشتعال سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا بھرپورجواب دیا جائے گا۔ فوجی سربراہ کے اس واضح پیغام سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاک فوج کے سربراہ پاکستان میں دہشت گردی کے بھارتی عزائم سے مکمل طور پر آگاہ ہیںاورانھیں اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے ،جہاں تک پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کی کارفرمائی کا تعلق ہے توبلوچستان سے گرفتار کیاگیا بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو بھارتی عزائم کا ثبوت ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان حقائق کے عین مطابق ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اُن کے عوام کے ساتھ ہماری یکجہتی جاری رہے گی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے رہیں گے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے واقعات سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ بھارت کشمیر ی عوام کو خاموش کرنے میں ناکامی کے بعد اب پاکستان کی سرحدوں پر اپنی مرضی کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ بھارت اس وقت بدحواسی کا شکار ہے ۔ اب بھارت کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ پاک فوج کو دہشت گردی کے واقعات میںاُلجھائے رکھنے کی کوشش کرے اورپاک فوج کو امن امان کی صورت حال میں مصروف کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرے،بھارت میںمئی 2014میں نریندرا مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے پاک بھارت تعلقات میں موجود تلخیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،خاص طورپر کشمیر میں کنٹرول لائن پر صورت حال روز بروز نازک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع نہیںہوئی ہے اور خیال یہی ہے کہ ان تلخیوں کو اتنا نہیں بڑھنے دیاجائے گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک دفعہ جنگ شروع ہوجائے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جیسی صورت حال ضرور پیدا ہوچکی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارت اور اس کے زیر قبضہ کشمیر میں اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتاہے تو ملبہ اٹھائے جانے سے قبل ہی اس کا الزام پاکستان پر لگا کر پورا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے،جنوری 2016میں پٹھان کوٹ میں دہشت گردی کاواقعہ ہو یا ستمبر 2016میں اڑی سیکٹر پر دہشت گردوں کا حملہ،یا نومبر 2016میںجموں کے قریب ناگروتا کے فوجی کیمپ پر حملہ، بھارتی رہنماﺅں نے بلا سوچے سمجھے ان کاالزام پاکستان پر عاید کردیا ، دہشت گردی کے واقعات کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا بھارت کا پرا نا شیوہ رہاہے اور موجودہ مودی حکومت بھی اسی ڈگر پر گامزن نظر آتی ہے، اس سے قبل دسمبر 2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اورستمبر 2008میں ممبئی حملے کے الزامات بھی پاکستان پر ہی عاید کیے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
بھارتی رہنماﺅں کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے محدود وسائل اپنے غریب اور فاقہ کش عوام پر خرچ کرنے کے بجائے جنگی تیاریوں پر صرف کرکے خود اپنا اوراپنے عوام کا نقصان کررہے ہیں جبکہ مذاکرات کی میز پر ہر مسئلے کا قابل عمل حل نکالا جاسکتاہے، بھارتی رہنماﺅں کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ کوئی ایک مطالبہ تسلیم کرانے کے لیے مذاکرات کے پورے عمل کو التوا ءمیں ڈال دینا دانشمندی کے منافی ہے۔جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے پاکستان نے ہمیشہ اپنے موقف میں لچک برقرار رکھی ہے جس کاثبوت یہ ہے کہ 1980کے آخر تک حکومت پاکستان کا اِصرار تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت میں اضافے اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رابطوں اورتعلقات میں اضافے پر بات چیت مسئلہ کشمیر کے تصفیے کے بغیر نہیں ہوسکتی یعنی پہلے مسئلہ کشمیر حل کرو لیکن اب پاکستان نے اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے کشمیر سمیت تمام مسائل پر ایک ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کااظہار کردیاہے ،بھارتی رہنما اگر واقعی پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں ہیں تو پھر بھارتی رہنماﺅں کو بھی دہشت گردی اور اسی طرح کے دیگر مسائل کے بارے میں اسی طرح کا لچکدرا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔