میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

جرات ڈیسک
منگل, ۲۳ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم فیصلہ محفوظ کر رہے ہیں۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس پاکستان نے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور عرفان رامے کا وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ شوکت صدیقی کے الزامات تسلیم کر رہے ہیں یا مسترد؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم تمام الزامات مسترد کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھی جواب جمع کرایا ہے۔ شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید الزامات کی تردید کر رہے ہیں، یہی ہمارا کیس ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو پہلے انکوائری کروانی چاہیے تھی، انکوائری میں ہمیں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر جرح کا موقع ملتا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا انکوائری کی گئی تھی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب شوکت صدیقی نے تقریر تسلیم کر لی تھی تو انکوائری نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کہہ چکے حقائق کی انکوائری نہیں ہوئی، اب بتائیں کیا تجویز کرتے ہیں، کارروائی کیسے چلائیں؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیرقانونی قرار دیں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات سچے نہیں تو کیا ہو گا؟ شوکت صدیقی جو کہہ رہے ہیں مخالف فریق اسے جھٹلا رہے ہیں، کون سچا ہے کون نہیں یہ پتہ لگانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟انکوائری میں ثابت ہو الزامات درست، مگر لگائے پبلک میں پھر بھی ہٹایا جا سکتا ہے؟ ہمیں مسئلے کا حل بھی ساتھ ساتھ بتائیں۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کا حکم کالعدم قرار دے، میرے موکل کی تقریر کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کیسے اور کس قانون کے تحت کمیشن بنانے کا حکم دے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں کمیشن تشکیل دیتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری میں الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟ جن پر الزامات لگایا گیا ہم نے ان کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب؟ ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں، دوسری طرف سے یہ بات ہوسکتی ہے کہ الزامات کو پرکھا ہی نہیں گیا، کیا ہم معاملہ دوبارہ کونسل کو بھیج دیں؟ دونوں میں سے کوئی سچ نہیں بتا رہا۔ فیض حمید کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صرف پبلک تقریر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی خودمختاری اور جوڈیشل کونسل کا سوال ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، کونسل کی کارروائی میں تقاضے پورے نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ ان حالات میں کیسے فیصلہ دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل سے بھی پوچھ لیتے ہیں، پوری قوم کی نظریں ہم پر ہیں، یہاں آئینی اداروں کی تکریم کا سوال ہے، ان حالات میں سوال یہ ہے کہ ہم کیا حکم نامہ جاری کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس طرح الزامات لگائے گئے کیا یہ ایک جج کے لیے مناسب تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں حقائق کو نہیں بھولنا چاہیے، اگر تقریر کرنے پر جج کو ہٹایا جائے پھر تو آدھی عدلیہ گھر چلی جائے گی، بار کونسلز کی میٹنگز میں کئی ججز تقریریں کرتے ہیں، مسئلہ تقریر کا نہیں تقریر کے متن کا ہے، جج کا کوڈ آف کنڈکٹ جج کو تقریر کرنے سے نہیں روکتا، مسئلہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنی تقریر میں کسی پر الزامات لگا دیتے ییں، برطانیہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکا میں سپریم کورٹ ججز بحث مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر الزامات درست بھی ہیں تو کیا شوکت صدیقی کا بطور جج طریقہ کار مناسب تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تقریریں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں، جج کے تقریر کرنے پر پابندی نہیں، ایسا ہوتا تو بار میں تقاریر پر کئی ججز فارغ ہو جاتے، مسئلہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے، کیا عدالت خود اس معاملے کی تحقیقات کرسکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طور پر ریمانڈ ہوسکتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جاسکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہو چکے، بطور جج بحال نہیں ہو سکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عافیہ شہر بانو کیس میں اپیل دائر کردی ہے، وفاقی حکومت کی اپیل کو شوکت صدیقی کیس کے ساتھ یکجا کر کے سنا جائے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر عافیہ شہر بانو کیس کا فیصلہ برقرار رہا تو شوکت صدیقی کیس ختم ہو جائے گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ فیصلہ برقرار رہنے پر شوکت صدیقی کو برطرف کے بجائے ریٹائر قرار دیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کے پاس شوکت عزیز صدیقی کیس میں فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فریقین تسلیم کر رہے ہیں کہ مکمل انکوائری نہیں ہوئی، جج کے خلاف کارروائی میں پوچھا جاتا ہے اس کا شفاف ٹرائل کا حق کہاں جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو بغیر انکوائری ہٹانا طے شدہ قانونی تقاضوں کے منافی ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ جوڈیشل کونسل خود نوٹس لے تو انکوائری زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق کونسل نوٹس لے سکتی ہے، رجسٹرار سیکریٹری جوڈیشل کونسل نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے سیکریٹری کو سپریم جوڈیشل کونسل نے خود نوٹ لکھنے کا کہا ہو، کیا شوکت عزیز صدیقی پر فرد جرم عائد ہوئی تھی؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکاز نوٹس دیا گیا تھا لیکن فرد جرم عائد نہیں ہوئی تھی، کونسل میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد انور کاسی کے خلاف بھی کارروائی جاری تھی، جسٹس فرخ عرفان کیس میں انور کاسی کی کونسل میں شمولیت پر اعتراض بھی ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل ارکان کے خلاف اعتراض دائر کرنا تاخیری حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ انور کاسی کے خلاف بھی انکوائری ہو رہی تھی اس لیے ان پر اعتراض کیا گیا تھا، انور کاسی نے شوکت صدیقی کے خلاف بیان دیا تو انہیں اپنے کیس میں کلین چٹ مل گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضوں پر بات نہ کریں، یہ آرٹیکل 184/3 کا کیس ہے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی 2 ماہ چلی، جواب بھی جمع کرایا گیا، یہ کہنا درست نہیں کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، شوکت عزیز صدیقی نے دو جوابات بھی جمع کرائے تھے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کی استدعا کی جو تسلیم نہیں کی گئی۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ تقریر کو تسلیم کیا گیا پھر صرف یہ دیکھنا تھا کہ یہ مس کنڈکٹ تھا یا نہیں، شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات جوڈیشل کونسل کیسے کر سکتی تھی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مضبوط آئینی باڈی ہے، آپ کہہ رہے تھے انکوائری کمیشن بنا دیں؟ جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آرٹیکل 210 پڑھیں تو سپریم جوڈیشل کے پاس وسیع آئینی اختیارات ہیں، ہر آئینی باڈی یا ادارے کے پاس آزادانہ فیصلے کا حق ہے، سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگراں نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حرکت میں آسکتی ہے، موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہو گا، محتاط چلنا ہوگا کہ کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50 سال تک بطور عدالتی نظیر استعمال ہو سکتا ہے۔ وکیل سندھ اور اسلام آباد بار کونسل نے شوکت صدیقی کیس واپس کونسل کو بھیجنے کی مخالفت کر دی۔ بار کونسلز کے وکیل صلاح الدین نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہو چکے ہیں، سپریم کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کا خود جائزہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین صاحب آپ کہہ رہے کہ قوم کو اندھیرے میں رکھا جائے؟ جج کی حد تک فیصلہ کیسے دیں، اس کے الزامات کا بھی تو عوام کو پتہ چلنا چاہیے، صلاح الدین آپ معاملہ کونسل کو ریمانڈ بیک کرنے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار محدود ہے، اگر عدالت چاہے تو کمیشن بنا کر شوکت صدیقی کے الزامات کی انکوائری کر سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کو کس قانون کے تحت کمیشن بنانے کا اختیار ہے؟ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملے کی انکوائری کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ہم گواہان کے بیانات اور ان پر جرح کریں؟وکیل صلاح الدین نے کہا کہ ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت یہ اختیار استعمال کرتی ہے تو سپریم کورٹ بھی کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہیوئے کہا کہ آپ کی رائے یا احساسات نہیں قانونی معاونت درکار ہے، آپ نے 184/3 کی درخواست دائر کی تو صرف جج کی پینشن بحالی کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف ایک نکتے کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انکوائری کیوں نہیں ہوئی تھی، ہم پرانے کورس کو درست کر رہے ہیں، آپ جج کی پینشن بحالی چاہتے ہیں تو پھر آپ کی 184/3 کی درخواست خارج کر دیتے ہیں، آپ کی درخواست سے مفاد عامہ کا کیا معاملہ طے ہوگا؟ کیا ایک جج کے پینشن بحالی سے عدلیہ کی آزادی بحال ہوجائے گی؟ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں شوکت صدیقی کے الزامات پر الگ سے انکوائری ہوسکتی ہے، اگر الزامات غلط ثابت ہوئے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کا کالعدم شدہ فیصلہ بحال ہوجائے گا؟ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو شوکت صدیقی کے خلاف فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ جوڈیشل کونسل کے بغیر سابق جج کے خلاف فوجداری کارروائی کیسے ممکن ہے؟ وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کوئی بھی انکوائری کمیشن کیسے قائم کر سکتی ہے؟ کیا ججز کی قسمت کا فیصلہ ایس ایچ او کے ہاتھ میں دے دیں؟ مجھے تو یہ دلیل سمجھ نہیں آرہی، کچھ آگے بڑھنے والی بات کریں، مناسب ہو گا اپنے نکات تحریری طور پر دیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے سوال کیا کہ کیا شوکت صدیقی مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اس نکتے پر عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی گئی، یہ تو سب کہہ رہے ہیں کہ انکوائری نہیں ہوئی۔ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ اگر تقریر حقائق کے خلاف تھی تو شوکت صدیقی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے، اگر تقریر حقائق کے مطابق تھی تو شوکت صدیقی مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے، جوڈیشل کونسل کو پبلک میں تقریر سے مسئلہ تھا تو کوئی صورت نکل سکتی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کیا جج کو ایک سال کے لیے کوئی سزا دے دیتی؟ جوڈیشل کونسل یا تو الزامات مسترد کر سکتی ہے یا پھر جج کو برطرف کرسکتی ہے۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ چیئرمین کونسل نے چیف جسٹس اسلام آباد کو شوکت صدیقی کے الزامات دیکھنے کا کہا، چیئرمین نے ازخود انکوائری کا حکم دے کر رپورٹ دیتے ہوئے اختیار سے تجاوز کیا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیس میں فیض حمید نے جواب جمع کرا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اپنے جواب میں فیض حمید نے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کا الزام مسترد کیا اور کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر اور جوڈیشل کونسل کے سامنے کسی مبینہ ملاقات کا ذکر نہیں کیا، شوکت عزیز صدیقی خود مان چکے ہیں کہ مبینہ ملاقات میں کی گئی درخواست رد کی گئی تھی۔ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں فیض حمید نے یہ بھی کہا کہ شوکت عزیز صدیقی سے کبھی رابطہ نہیں کیا، سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ سے نواز شریف کی اپیلوں پر بات نہیں ہوئی، کبھی یہ نہیں کہا کہ ہماری 2 سال کی محنت ضائع ہو جائے گی، شوکت عزیز صدیقی کے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں، یہ الزامات بعد میں آنے والے خیالات کے مترادف ہیں۔ اسی کیس میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے نے بھی جوابات جمع کرا دیے ہیں۔ انور کاسی اور عرفان رامے نے بھی سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے الزامات لگائے تھے کہ عرفان رامے، فیض حمید کے ساتھ ان کے گھر آئے تھے۔ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی پر شوکت صدیقی کی شکایت نہ سننے کا الزام تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں