ٹرمپ کی صدارت کا آغاز....غاصب ریاست اسرائیل کی باچھیں کھل گئیں
شیئر کریں
دوستی اور اسلامی شدت پسندی سے نمٹنے کی خواہش کو سراہتا ہوں،نیتن یاہو ٹرمپ گفتگو
ڈیموکریٹس اور ریپلکن کی جانب سے اقوام متحدہ میںمنظور اسرائیل مخالف بل پر تنقید
کئی ممالک فلسطین کی حمایت سے پیچھے ہٹنے لگے،مصر ی صدر کی ٹرمپ کے فون کے بعدیوٹرن
سلامتی کونسل کے اگلے ہی اجلاس میں اس کے متوازی تحریک منظور کیے جانے کے خدشات
شہلا حیات
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا صدارتی منصب پر بیٹھتے ہی اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردی ہیں اور اطلاعات کے مطابق صدارتی انتخابات کی مہم اورانتخابات میں کامیابی کے بعد سے عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد تک ان کے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار ہے۔وائس آف امریکا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے ہر ہر قدم کی بھرپور تائید وحمایت کررہے ہیں ، گزشتہ روز بھی نیتن یاہو نے شدت پسند اسلامی دہشت گردی کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان کی بھرپور حمایت کااعلان کیا ،اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ میں اسرائیل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی قریبی دوستی اور ساتھ ہی شدت پسند اسلامی دہشت گردی سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے کی خواہش کے اعلان کو سراہتا ہوں۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے یروشلم میں اپنی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے آغازپر اسرائیل کے انتہائی اہم اتحادی، امریکا اور ا±س کے نئے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ سے رابطہ کرکے بات چیت کرنے کے بعد یہ بات کہی۔وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اوراسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے اتوار کو ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
بات چیت سے قبل، وائٹ ہاﺅس نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے متعلق بات ابھی سوچ کے انتہائی ابتدائی درجے پر ہے۔تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسا کرنے پر زور دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو نے اتوار کی علی الصبح کہا کہ ہم عہدہ سنبھالنے پر صدر ٹرمپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ا±نھوں نے کہا کہ میں اسرائیل کے لیے ا±ن کی قریبی دوستی اور ساتھ ہی شدت پسند اسلامی دہشت گردی سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے کی خواہش کے اعلان کو سراہتا ہوں۔
نیتن یاہو کو ماضی میں اعتراض رہا ہے کہ وائٹ ہاﺅس کے ا±ن کے سابق حریف، صدر براک اوباما ”شدت پسند اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ادا کرنے سے انکار کرتے رہے تھے۔ اسرائیلی سربراہ حکومت سمجھتے ہیں کہ شدت پسند اسلام یہودی ریاست اور مغرب دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرے کا باعث ہے۔ لیکن، اوباما فلسطین کے معاملے سے اسے علیحدہ کرنے کے خواہاں رہے، جسے وہ آزادی کی جائز جدوجہد قرار دیتے تھے۔ یہ کئی ایک معاملات میں سے ایک معاملہ تھا جس پر دونوں رہنماﺅں کے درمیان نااتفاقی قائم رہی۔دوسرا معاملہ امریکا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جوہری سمجھوتا تھا، جسے نیتن یاہو ایک تباہ ک±ن غلطی خیال کرتے ہیں، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ا±نھوں نے کہا کہ ایران کئی معاملوں میں سے ایک معاملہ ہے جو نئی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے۔
ادھر ایک اور اطلاع کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان نے دونوں پارٹیوں کی جانب سے پیش کردہ ایک بِل منظور کیا ہے، جِس میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے خلاف ووٹ دئے جانے پر اقوام متحدہ پر تنقید کی گئی ہے، واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے خلاف ووٹ دیا تھا۔جمعرات کودونوں پارٹیوں کے ارکان کی جانب سے مشترکہ طورپر پیش کردہ بِل کے حق میں 235 جب کہ مخالفت میں 188 ووٹ پڑے، لیکن اس قانون سازی پر عمل درآمد لازم نہیں۔بِل میں اسرائیل کے ساتھ حمایت کا اعلان کرتے ہوئے امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ مستقبل میں اقوام متحدہ میں اس نوعیت کی قرارداد پیش ہونے کی صورت میں ا±س کی مخالفت کی جائے، جو، بِل کے الفاظ میں، ”یک طرفہ اور اسرائیل مخالف“ عمل ہے۔اِس بِل کے مخالفین نے جن میں زیادہ تعداد ڈیموکریٹس کی تھی، نے کہا ہے کہ بِل مشرقِ وسطیٰ کے امن عمل کی پیچیدگیوں کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔گزشتہ ماہ تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے سالانہ ووٹ کے دوران امریکا غیر حاضر رہا، جس میں فلسطینی علاقے میں بستیوں کی تعمیر پر اسرائیل کی مذمت کی گئی تھی۔جبکہ ماضی میں، سلامتی کونسل کے مستقل ر±کن کی حیثیت سے، امریکا اسرائیل کے حق میں ویٹو کا حق استعمال کرتا آیا ہے، جس کے باعث اس طرح کی قرارداد منظور نہیں ہوپاتی تھی۔
ادھراسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کے لیے تعمیرات بند کرنے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور ہونے والی قرارداد پر خاصے برہم ہیں اور وہ یہ قرارداد پیش کرنے والوں میں شامل2 ممالک نیوزی لینڈ اور سینیگال سے اپنے سفیروںکو واپس طلب کر چکے ہیں۔بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر ان دونوںملکوں کے سفیراسرائیل واپس آچکے ہیں تاہم ابھی تک ان کو واپس بلانے کی وجہ ان سے مشاورت بتائی گئی ہے۔یاد رہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیرات رکوانے سے متعلق رائے شماری کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس ان دو ممالک کے علاوہ وینزویلا اور ملائیشیا کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔مصر بھی اس کے حق میں تھا لیکن صدر عبدالفتاح السیسی اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے بعد قاہرہ اس عمل سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔سلامتی کونسل میں یہ قرارداد منظور کر لی گئی اور روایتی طور پر اسرائیل کی حمایت کرنے والا ملک امریکا اجلاس سے غیر حاضر رہا۔اس قرارداد کی منظوری پراسرائیل کے وزیراعظم نے اپنے فوری ردعمل میں ایک بیان میں کہا تھاکہ ”ان کا ملک اس شرمناک قرارداد کو مسترد کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔“
"وائٹ ہاﺅس کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی بین روہڈز نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا ہے لیکن اسرائیل کی حکومت تواتر سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر آبادکاری سے متعلق واشنگٹن کے تحفظات سے صرف نظر کرتی آرہی ہے۔”ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن اس کا ایک جیسا ہی نتیجہ نکلا کہ یہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔
"ادھر فلسطین کے اعلیٰ مصالحت کار صائب عریقات نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو سراہتے ہوئے اسے "فلسطین کے موقف کے لیے منصفانہ فتح قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہے اور کسی "منفی خطرے کی پروا نہ کرے۔”
فلسطینی سفیر کی جانب سے اس فیصلے پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کے باوجود اس بات کاامکان کم ہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اب اقوام متحدہ کے بہت سے ارکان کے لیے اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ڈٹ جانا شاید ممکن نہ رہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اگلے ہی اجلاس میں اس کے متوازی تحریک منظور کیے جانے کے خدشات کو رد نہیں کیاجاسکتا تاہم اس حوالے سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی اس طرح آنکھ بند کرکے حمایت کے نتیجے میں امریکا کو پوری دنیا میں سبکی کاسامنا کرنا پڑے گا جس سے ایک بڑی عالمی طاقت کی حیثیت سے اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہوگی۔
٭٭٭