وطن عزیز میں صاف شفاف انتخابات، ممکن ہیں؟
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
جہاں تک وطن عزیز میں صاف شفا ف انتخابات کی بات ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ مجھے تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے 1945-46میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے تحریک پاکستان میں اپنے چندمرحوم ساتھیوں کے ساتھ امرتسر شہر اور تحصیل کے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ میں ان انتخابات سے لے کر پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کے بارے میں جانتا ہوں اور اللہ کو حاضر ناظرمان کے یہ کہہ رہا ہوں کہ وطن عزیز میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات صاف ،شفاف اور آزادانہ کبھی نہیں ہوئے۔
انیس سو چھپن میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے میں جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن کا پہلا آئین بنایا۔ یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے۔23 مارچ 1956ء کو ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔سکندر مرزا پہلے صدر مقرر ہوئے۔ آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا۔لیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا پاتا۔ صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کی شہ پر 1956ء کے آئین کو منسوخ کردیا۔
1970 ء کے انتخابات بھی شفاف اور آزادانہ ہرگز نہ تھے۔ ان انتخابات کے دوران مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں دھونس ، دھاندلی کی بنا پر بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم نے مشرقی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مسلح کارکنوںاور بھارتی ایجنٹوں نے پولنگ ا سٹیشنوںپر کھلم کھلاقبضہ کر رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات بڑے شفاف تھے لیکن انہیں ان انتخابات کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہوئے ان انتخابات کے آزادانہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وطن عزیز کی بڑی بدقسمتی ہے کہ جب جنرل یحییٰ نے 3 مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو اسے بھٹو صاحب کے مطالبے پر منسوخ کر دیا گیا۔ 3 مارچ 1971ء تک مشرقی پاکستان میں حالات پرامن تھے اور مشرقی پاکستان کے عوامی لیگ کا کوئی رکن اسمبلی چھ نکات یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں بالکل نابلد تھا اس وقت کسی کے ذہن میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں تھی۔ شیخ مجیب الرحمن مغربی پاکستان کی جیل میں تھے اور وہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر تھے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ دوبارہ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے خواہش مند تھے اور ان کے ذہن میں علیحدگی کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا لیکن ہمارے فوجی حکمران اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ڈھاکہ میںدوبارہ اجلاس بلانے کی مخالفت کی اور انہوں نے لاہور میں یہاں تک کہا کہ پیپلز پارٹی کے جو لوگ ڈھاکہ جائیں گے ان کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔
ان دنوں وطن عزیز جن بحرانوںسے گزر رہاہے۔ہمارے نگران وزیر اعظم کواس کا کوئی ادراک نہیں۔ نگران حکومت کے دور میں افغانستان سے حالات سدھارنے کیلئے کوئی صحیح اقدام نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کے برعکس افغانوں کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان نے گزشتہ 48 سال سے افغان مہاجرین کیلئے خوشدلانہ اقدامات کئے لیکن افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کے نام پر جو لوگ وہاں برسر اقتدار آئے ہمارے حکمرانوں نے افغانستان کے بارے میں کوئی صحیح مؤقف نہ اپنایا اورامریکہ اور اس کے زیر اثر ہنود و یہود اور نصاریٰ پر مشتمل انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر افغان حکومت کو جان بوجھ کرتسلیم نہ کیا ۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ ہنود و یہود اور نصاریٰ کی پاکستان بارے سوچ کچھ اچھی نہیںہے۔ ملک میںموجود تحریک پاکستان کے کارکن ، محب وطن، باشعور ، دردمند پاکستانی نگرانوں کی پالیسیوں سے سخت مایوس ہیں۔ اس وقت قوم بلا شبہ ملکی حالات کے بارے میںمایوسی کا شکار ہے۔ نگران حکومت نے علامہ اقبال ، حضرت قائد اعظم اور مفکر اسلام مولانا مودودی کے فلسطین کے بارے میں واضح مؤقف سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے۔ دفاعی اعتبار سے پاکستان ایک بڑی ریاست تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے کبھی جرات مندانہ اقدام یا بیان اسرائیل اور امریکہ کو بے یارو مددگار فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کو روک سکتا تھا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی نگران حکومت نے اس بارے میں کوئی مؤثر اور مضبوط مؤقف اختیار نہیں کیا بلکہ نگران وزیر اعظم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کو پاکستان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن سولہ ماہ کی پی ڈی ایم کی حکومت اور اس کے بعد نگران حکومت پاکستانی قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔
پاکستانی حکام تدبر، فراست اور حکمت اور دانائی سے غور فکر کرتے اور کشمیریوں و فلسطینیوں کی مؤثر امداد کیلئے کوئی صحیح راستہ اور مضبوط مؤقف اختیار کرتے تو شاید فلسطین میں بیس ہزار سے زائدشہادتیں نہ ہوتیں۔ ہمارے نگرانوں نے نہ صرف امت مسلمہ کے تصور کو نظر انداز کیا بلکہ مسلمان ملکوں کے مشترکہ اجلاس میں کوئی ٹھوس آواز نہیں اٹھائی۔ ہنود و یہود و نصاریٰ کے پاکستان بارے عزائم ناپاک ہی نہیں بہت خطرناک بھی ہیں مگرنگران ان حالات کا صحیح ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ اے کاش کہ ہمارے حکمران تمام مسلم ممالک اور امت مسلمہ کو متحد کرتے اور قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کوئی مضبوط مستحکم اور مؤثر طرز عمل اختیار کرتے۔
ہمیں آزادانہ ، صاف اور شفاف انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف نالائق اور نا اہل شخص کو ہرطریقے سے برسر اقتدار لانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری طرف ایک پارٹی کے سربراہ اور اس کے قریبی ساتھیوں کو بے شمار مقدمات میں گرفتار کر کے جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کو لانے کیلئے ہر حربہ اورہر ادارہ کا م کر رہا ہے اور دوسری طرف دوسری بڑی پارٹی اور اس کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے ۔ ان انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ مختلف ذرائع سے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابی آزادی مل جائے اور وہ کامیاب بھی ہو جائے تو اسے بہر صورت اقتدار میں نہ رکھا جائے گا۔ ہمارے ادارے کیا سوچ رہے ہیں۔ کیا انہیں ملک کے موجودہ حالات کا ادراک نہیں۔اسکی بربادیوں کے مشورے ہو رہے ہیں لندن، واشنگٹن ، تل ابیب اور دہلی میں لیکن ہمارے صاحب اقتدار اور ادارے نا معلوم کیاسوچ رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور محب وطن لوگ صرف بارگاہ الہٰی میں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ یا اللہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے فکر و عمل کے نتیجے میں ستائیس رمضان المبارک ، نزول قرآن کی شب پاکستان عطا کیا تو اس کی قرآن کی طرح حفاظت فرمائیے اور قیامت تک قائم دائم اور پائیدار رکھیئے۔ آمین