میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کوئٹہ ۔ مسائل کا گڑھ

کوئٹہ ۔ مسائل کا گڑھ

منتظم
منگل, ۲۲ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

میر اعظم بلوچ
کوئٹہ بلوچستان کادارالحکومت ہونے کے باوجود 35 سالوں سے نہ صرف نظر انداز کیا جاتا رہا ہے بلکہ اس بد قسمت شہر کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک بھی انتہائی قابل افسوس ہے ۔شہر کی ترقی کے لیے ہمیشہ اعلانات تو کئے گئے لیکن کبھی شہر کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اسلام آباد ، کراچی ،لاہور ، پشاور، اسلام آباد یا ملتان کی طرز پر ترقی دینے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ پالیسیاں بنائی جاتی رہیں لیکن ہر دفعہ بات پالیسی کے نفاذ پر آکر رک جاتی ہے۔ اگر کبھی کوئٹہ میں کسی پالیسی کا نفاذ ہوابھی ہے تو صرف لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے،موٹرسائیکلوں پر ڈبل سواری پابندی، پانچ یا زائد افراد کے ایک جگہ جمع ہونے یاشاہراہوں کو عوام کے داخلے کے لیے بند کردینے ، یا سیکورٹی چیک پوسٹوں کو شہر کے رہائشی علاقوں تک پھیلانے تک محدود رہا ہے ۔ عوام کے بنیادی مسائل ، پانی ،بجلی ، صحت، روزگار اور کوئٹہ کی صفائی اور اسٹریٹ لائٹس کی تنصیبات کبھی بھی حکومتوں کے ایجنڈے کا حصہ نہیں رہے ۔
حکومتوںکے ساتھ ساتھ سول بیوروکریسی آج بھی انگریز سامراج کی طرز پر افسر شاہی اور اجلاسوں سے باہر کبھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے دکھائی نہیں دیتی، البتہ یہ لوگ ایک مشکل علاقے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے نام پر سیاسی طور پرذاتی مفادات کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ منتخب وزیراعظم پاکستان کے پرنسپل سیکریٹری بھی ماضی میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات رہے ہیں۔بگٹی رئیسانی قبائل کے درمیان تنازعات میں جب کئی افراد کی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ وہ محض ایک غیر جانبدار ریفری کی طرح معاملات دیکھتے رہے ۔ لیکن ریاستی مشینری کو استعمال نہ کیا کہ لوگوں کی جانیں بچائی جاسکیں اورصرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انہیں انتہائی مشکل علاقوں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ کیونکہ باہر کے صوبوں سے آنے والے وائسرائے صاحبان کو بلوچستان جیسے غیر پرکشش علاقوں میں سب سے پر کشش چیز ملازمت میں جلد ترقی کے امکانات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
ارکان اسمبلی اور وزراءکے اختیارات میں صوبے میں غیر جماعتی لوکل باڈیز انتخابات کے بعد مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ ایم پی اے صاحبان اور وزراءقانون سازی کے اہم کام کو سنجیدگی سے سرا نجام دینے کے بجائے اختیارات کے استعمال میں زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ فنڈز کے نام پر بھاری رقوم وزراءاور ارکان اسمبلی کے اختیارات میں دے دیے گئے ہیں ۔
1980 کی دہائی میں دارالحکومت کوئٹہ کی حالت مزید ناگفتہ بے ہونا شروع ہوگئی جب افغان جنگ کے نام پر بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین بلوچستان اور خیبر پختونخواکی سمت منتقل ہوئے ۔ افغان جنگ میں ہونا توچاہیے تھا کہ ایران کی طرزپرخاردار تاروں کے احاطہ میں مہاجر کیمپوں تک محدود رکھا جانا چاہیے تھا ۔ لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر افغان مہاجرین کو شہر کی سمت پھیلنے دیا گیا ۔ نہ جانے وہ کیا راز ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام افغان پنا ہ گزینوں کی وطن واپسی سے نہ صرف نالاں ہیں بلکہ دونوں جماعتوں کے قائدین مطالبہ کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین پہلے پشتون ہیں ،ان مہاجرین کو مقامی قرار دیا جائے (تاکہ ان دونوں جماعتوں کے ووٹ بینک میںاضافہ برقرار رہے )۔ وہ تمام وسائل اور آسانیاں جو مقامی لوگوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے تھیں ، وہ سب مہاجرین مقامی لوگوں کے ساتھ انجوائے کررہے ہیں ۔ کاروبار پہلے ہی پیسہ اور بلیک منی کے بل بوتے پر افغان مہاجرین کے ہاتھ میں ہے ۔
آج بلوچستان اسمبلی میں6 ارکان اسمبلی کوئٹہ کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن شہر کی صورتحال کسی طور بھی حیدرآباد اور سکھر سے بہتر نہیں ہے ۔ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے بے حال عوام کو بے دست و پا کرکے ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ملک کے دوسرے شہروں میں لا اینڈ آرڈ ر کی بدترین صورتحال اورخیبر پختونخوا اور ایجنسیز میں آپریشنوں کی وجہ سے بے دخل کئے جانے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ اب کوئٹہ میں سکونت اختیار کرتے جارہے ہیں ۔
50 ہزار نفوس کے لیے بسائی جانے والی یہ چھوٹی سی کوئٹہ کی وادی آج 30 لاکھ افراد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ شہر کی پانی کی ضرورت اس وقت 50 ملین گیلن کو پہنچ چکی ہے لیکن شہر کو صرف 25 لاکھ گیلن پانی کی سہولت حاصل ہے ۔ شہر کی تمام شاہراہیں کوئٹہ کے داخلی مقام لک پاس اور سریاب سے ہوتے ہوئے آخر تک ایک تباہ حال شہر کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ ایک ایسا منظر کہ جہاں ہر ہر قدم پر پڑے گڑھے، اسٹریٹ لائٹس ناپید، سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام ، پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ ناپید، کچرے کے ڈھیر تو ہر ہرقدم پر دکھائی دیتے ہیں ۔
کوئٹہ میں پانی کی فراہمی کے لیے حکومت کی طرف سے پٹ فیڈر کینال سے شہر کو پانی کی فراہمی ایک عجیب سوال کو جنم دے رہی ہے ۔ آخر سطح سمندر سے 6000 فیٹ بلندی پر پٹ فیڈر سے پانی کو کوئٹہ تک بولان کے راستے پہنچانا کیا ممکن ہے ؟ اس سے بہتر ہے کہ آج جب اقتصادی راہداری منصوبہ کی گونج ملک کے طول و عرض میں سنائی دے رہی ہے تو دبئی اور یو اے ای کی طرز پر سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنا کر مکران کو پہلے سیراب کیا جائے اور پھر پانی کو ذخیرہ کرکے کوئٹہ تک پہنچایا جائے ،اس صورت میں راستے میں آنے والے تمام اضلاع بھی پانی کی سہولت سے مستفید ہوسکیں گے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں