میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آزادی مارچ کیلئے پہلے دن سے مولانا کے ساتھ ہیں ،بلاول بھٹو

آزادی مارچ کیلئے پہلے دن سے مولانا کے ساتھ ہیں ،بلاول بھٹو

ویب ڈیسک
منگل, ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے خود اسلام آباد کا لاک ڈائون کر دیا اور خود اسلام آباد بند کر رہی ہے ، یہ پہلی بار ہو گا جہاں حکومت خود اپنے دارالحکومت کو خود لاک ڈائون کروا رہی ہے ۔شروع دن سے پاکستان پیپلز پارٹی آزادی مارچ کو بھر پور سپورٹ دے رہی ہے ، پی پی پی عہدیدار اور کارکن مولانا فضل الرحمان کے احتجاج میں مدد کر رہے ہیں، استقبال کر رہے ہیں۔ نیب اور ہماری معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے پہلے یہ صر ف اپوزیشن کا مئوقف تھا اور اب حکومت کا بھی یہی مئوقف ہے ، دوسرے اداروں کا بھی مئوقف ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ نیب آج کھلا ہے ہمیں نیب کو بند کرنا پڑے گا۔ چاہے جمہوریت کی بحالی ہو، چاہے معیشت کو درست سمت میں لانا ہو، چاہتے میڈیا کی آزادی ہو ان سارے مسائل کے سامنے جومسئلہ ہیں وہ عمران خان ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم عمران خان سے استعفیٰ لیتے ہیں تو ہم ان تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ہماری محنت اور کارکنوں کی جدوجہد سے موجودہ کٹھ پتلی حکومت گھر جائے گی اور ایک عوامی حکومت بنائی جائے گی جو عوام کے مسائل حل کر سکے گی۔ان خیالات کا اظہار بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد آصف علی زرداری کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر آصفہ بھٹو زرداری، پی پی پی سینٹرل پنجاب کے صدر چوہدری قمر زمان کائرہ، سینیٹر شیری رحمان اور دیگر پی پی رہنما بھی موجود تھے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آصف علی زرداری کی صحت کو استعمال کر کے ، طبی سہولیات سے محروم رکھ کر ، پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو دبائو میں ڈالنا چاہا رہی ہے مگر پی پی پی قیادت ان کے دبائو میں کبھی نہیں آئے گی ،ہم نے ہمیشہ ہر ظالم کا مقابلہ کیا ہے اور اس کٹھ پتلی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں، اس کا ظلم سہنے کے لئے تیار ہیں، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ،اپنی جدوجہدر رکھیں گے ، اپنی محنت جاری رکھیں گے ، ہم ہمیشہ غیر جمہوری حکومتوں اور کٹھ پتلیوں سے لڑتے آئے ہیں اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سانحہ کارساز کی برسی پر کراچی میں جلسہ رکھا تھا اور سارے کراچی کے عوام نے پیغام بھیجا کہ وہ اس حکومت کو برداشت نہیں کریں گے ، وہ عمران خان کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عام عادمی کو اور غریب آدمی کو مہنگائی کی سونامی میں اور ٹیکسز کے طوفان میں دھکیل دیا گیا اور ان کی زندگی مشکل کر دی ، جمہوری احتجاج ہر جماعت کا حق ہوتا ہے اور یہ ہمارا آئین کہتا ہے ، یہ ہماری سپریم کورٹ کہتی ہے اور عمران خان نے خود اس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے ، عمران خان نے قومی اسمبلی فلور پر اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا اپوزیشن احتجاج کرے اور دھرنا دے وہ کنٹینر بھی بھیجیں گے اور کھانا بھی دیں گے تو اس کو یہی کرنا چاہیئے اور اپنی بات پر قائم رہنا چاہئے ، ہر بات پر یوٹرن نہیں لیا جا سکتا اور امید ہے کہ عمران خان اس کو سمجھیں گے سیاست میں حکومت کو سیاسی کردار ادا کرنا چاہئے اور انہیں ملک میں جمہوری سیاست کو سپیس دینی پڑے گی ورنہ ہم چھین کر لیں گے ۔انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ پارلیمان پر تالا لگوائیں، الیکشن میں دھاندلی کروائیں، عدلیہ کو دبائو میں ڈالیں، آپ نیب کو دبائو میں ڈالیں اور جمہوری جماعتوں کے لئے جو بھی سیاسی ر استے ہیں ان کو بند کرتے ہیں، پھرہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں احتجاج کرنا پڑ رہا ہے ،حکومت نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے اس پر گذشتہ روز اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا اور یہ طے ہوا کہ سیاسی اور پرامن جمہوری احتجاج ہم سب کا حق ہے ، حکومت کے ساتھ بات چیت ضرور کرنی چاہیئے لیکن حکومت کو اس بات کی گارنٹی دینی چاہیئے کہ احتجاج کرنے کے جمہوری حق میں سہولت فراہم کرنی چاہیئے نہ کہ اس کو روکے ۔ انہوں نے کہا کہ شروع دن سے پاکستان پیپلز پارٹی آزادی مارچ کو بھر پور سپورٹ دے رہی ہے ، پی پی پی عہدیدار اور کارکن مولانا فضل الرحمان کے احتجاج میں مدد کر رہے ہیں، استقبال کر رہے ہیں، ہماری رابطہ عوام مہم اسے سے پہلے بھی جاری تھی اور اب بھی جاری ہے ، دو دن بعد ہمارا تھر پارکر میں جلسہ ہے اس کے بعد کشمور میں جلسہ ہے ، ہمارا دبائو جاری رہے گا اور ہماری سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں عمران خان کو گھر جانا پڑے گا، آزادی مارچ کے حوالہ سے حکومت کی پریشانی، بوکھلاہٹ اور ڈر عوام کے سامنے ہے ، ملک میں کافی سیاست رہی ہے تاہم جتنا موجودہ وزیر اعظم بزدل ہے اتنا شاید اور کوئی وزیر اعظم نہیں رہا، وزیر اعظم کو تھوڑی سی ہمت پکڑنی چاہییے اور ہر تقریر، پریس کانفرنس سے ہر ریلی اور ہر جلسہ سے اتنا ڈرنا نہیں چاہیئے ، اسلام آباد صرف وزیر اعظم کا شہر نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا دارلحکومت ہے اور اگر سیاسی جماعتیں آنا چاہتی ہیں اور احتجاج کرنا چاہتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور ان کو اجازت دینا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کا مطالبہ ہے کہ نیا الیکشن کروانا پڑے گا اور میں سمجھتا ہوں کی ان الیکشنز کے لئے ہمیں انتخابی اصلاحات کرنا پڑیں گی اور 2018کے انتخابات یا ضمنی انتخابات کی طرح الیکشن کروانے ہیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیب جو آمریت کا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ نیب اور ہماری معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ، پہلے یہ صر ف اپوزیشن کا مئوقف تھا اور اب حکومت کا بھی یہی مئوقف ہے ، دوسرے اداروں کا بھی مئوقف ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ نیب آج کھلا ہے ہمیں نیب کو بند کرنا پڑے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں