وزارت بلدیات، ماتحت اداروں سے نیب اینٹی کرپشن زدہ افسران کی فہرست طلب
شیئر کریں
(رپورٹ جوہر مجید شاہ) وزیر بلدیات محمد جمانی نے میدان سنبھال لیا تمام ماتحت اداروں سے نیب اینٹی کرپشن ایف آئی اے زدہ افسران کی مکمل فہرست طلب کرلی جبکہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کا بھی مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایات جاری دوسری طرف نیب سے مفرور کرپشن کے بازار کا منجھا ہوا کھلاڑی موجودہ سکریٹری ادارہ ترقیات کراچی نے سپریم کورٹ سمیت وزیر بلدیات کے احکامات ہوا میں اڑا دئے تاحال طلب کردہ فہرست فراہم نہ کی جاسکی موصوف نے آفس کو لین دین کا اڈہ بنادیا ادھر یاد رہے موصوف سابق سزا یافتہ ڈی جی ناصر عباس کے بھی فرنٹ مین کھلاڑی رہیں ہیں موصوف کے بارے میں ذرائع نے دعویٰ کیا ہئے کہ مبینہ طور پر غیرقانونی پرموشن کیساتھ ادارے کی قیمتی اراضی کو ٹھکانے لگانے و خرد برد کے بھی بے تاج بادشاہ کہلاتے ذرائع نے بتایا کہ مبینہ طور پر چھوٹے سے گھر سے عالیشان بنگلے میں منتقلی بھی چند دنوں کی بات ہئے ادھر وزیر بلدیات کی طلب کردہ فہرست کئی روز گزر جانے کے بعد بھی مرتب نہ کرنا ایک جانب فرائض منصبی کے برخلاف تو دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے احکامات کی توھین و تزلیل کیساتھ وزیر بلدیات کے احکامات اور منصب کی تزلیل کے مترادف عمل ہئے جو کہ محکمہ جاتی نظم و نسق سے بھی روگردانی ہئے سکریٹری ادارہ ترقیات کراچی خالد ظفر ہاشمی نے اپنے عہدے اختیارات فرائض منصبی کو محض مال بناؤ مشن میں تبدیل کردیا ہئے ادھر ذرائع نے دعویٰ کیا ہئے کہ موصوف رفاعی پلاٹوں سمیت غیرقانونی الاٹمنٹ کے بھی ڈان کہلانے ہیں موصوف سابق ڈائریکٹر جنرل ناصر عباس جنھیں جیل یاترا ہوئی انکے ساتھ نیب کیس میں مفرور ہیں کہا جارہا ہئے کہ جب ناصر عباس کی گرفتاری کیلے تحقیقاتی اداروں نے چھاپہ مار کاروائی کی تو دوران چھاپہ موصوف فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے اور تاحال فرار ہی ہیں ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مبینہ طور پر اس کیس سے منسلک کئی دیگر افسران ضمانت پر ہیں اور کچھ سزا یافتہ بھی آج ادارے میں اپنی چمک دھمک کیساتھ براجمان ہیں ادھر دلچسپ پہلو یہ ہئے کہ مختلف تحقیقاتی اداروں کے افسران اور ادارہ ترقیات کراچی کے نیب اینٹی کرپشن ایف آئی اے زدہ افسران کے درمیان مشترکہ مفادات کونسل کے تحت آپسی معاہدہ ہوگیا ہئے تم بھی خوش ہم بھی خوش محکمہ جاتی منصب نوٹوں کی چکا چوند میں دب کر رہ گیا ہئے ادھر ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر کے ڈی اے کے 60 فیصد افسران کی تحقیقاتی اداروں میں تحقیقات چل رہی ہیں تو بس چل رہیں ہیں اور ریٹائرمنٹ تک چلتی ہی رہیں گی ادھر انتہائی دلچسپ پہلو یہ ہئے کہ سیکرٹری کے ڈی اے خالد ہاشمی نے اپنی ملازمت کا بڑا حصہ ادارہ ترقیات کے پرکشش محکمے یعنی ” لینڈ ” میں گزارا اور اج محکمہ کریش لینڈنگ پر ہے اور موصوف مالا مال ہیں موصوف اسٹیٹ ایجنٹوں کی چال بازیوں کیساتھ سرکاری زمینوں اور ریونیو کی بندر بانٹ میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ادھر انتہائی مستند ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر جب موصوف محکمہ لینڈ سے وابستہ تھے تو اس دور میں انکے ” ضیائ نامی ” ایک اسٹیٹ ایجنٹ سے دیرینہ مراسم اور وہ انکا دست راست بھی کہلاتا تھا موصوف نے ضیائ پر نوازشات کی خوب بارش کی جس کے جواب میں ضیائ نے بھی انکی خوب زیبائی کی اور انھیں بنگلہ نمبر C.34بلاک I نارتھ ناظم میں 600 گز کے بنگلے کی تعمیرات و تزئین آرائش کیساتھ ادنی سا بنگلہ بطور تحفہ پیش کردیا جس میں موصوف بہت جلد منتقل ہو جائنگے مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سندھ ڈی جی کے ڈی اے سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔