سرکاری ملازمت کا چور دروازہ
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
سنگھ پریوار نے بڑی مکاری سے وزیر اعظم نریندر مودی کا تعارف تیلی سماج کے پسماندہ کی حیثیت سے کیا۔ مودی جی نے خود کو چوکیدار کہا تو پسماندہ طبقات کے لوگوں نے سوچا اب تو ان کے حقوق محفوظ ہو گئے ہیں ۔ آگے چل کر ڈھکے چھپے انداز میں پتہ چلا چوکیدار چور ہے لیکن اب تو کھلا کھیل فرخ آبادی شروع ہوچکا ہے ۔ صدیوں سے دباکر رکھے جانے والے سماج کو آگے لانے کی خاطر آئین سازوں نے ریزرویشن کا نظام وضع کیا ۔ ابتداء میں یہ دلتوں اور قبائلیوں کے لیے تھا مگر منڈل کمیشن کے بعد اس کا دائرہ دیگر پسماندہ طبقات تک وسیع کردیا گیا تاکہ ذات یا پیشے کی بنیاد پر پچھڑوں کو آگے لایا جائے ۔ سابقہ حکومتوں نے استفادۂ عام کی خاطر پبلک سیکٹر کو مضبوط کیا کیونکہ سرکاری دفاتر اور قومی ملکیت کی صنعتوں میں ہی ریزرویشن کا نفاذ ممکن تھا ۔ مودی سرکار نے ریزرویشن کے قانون میں تبدیلی کیے بغیر بلا واسطہ اسے کالعدم کردیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی پسماندہ طبقات کے حقوق سلب بھی ہوجائیں اور اپنے اقتدار پر آنچ بھی نہ آئے ۔
مذکورہ بالا مقصد کے حصول کی خاطر بڑی سرکاری کمپنیوں میں سازش کے تحت خسارہ کروا کر نجی ہاتھوں کو فروخت کیا گیا۔ اس طرح سرکاری تحویل سے نکل کر نجی ہاتھوں میں جانے والے ادارے ریزرویشن سے بے نیاز ہوتے چلے گئے ۔ جن سرکاری شعبوں کو فروخت کرنا ممکن نہیں تھا ان میں ٹھیکیداری رائج کی گئی ۔ اس کے تحت یونیورسٹیوں تک میں اساتذہ کی بھرتی روک دی گئی۔ ممبئی یونیورسٹی جیسے نامور تعلیمی ادارے میں پچھلے دس بارہ سالوں سے کسی کو مستقل ملازمت پر لیا ہی نہیں گیاتو ٹھیکے پر بھرتی میں ریزرویشن ختم ۔ وزارت ریلوے جیسی اہم ترین وزارت اچانک بے بجٹ کردی گئی ۔ ریلوے کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کے ساتھ اسے بہت بڑے پیمانے پر ٹھیکیداری کو فروغ دیا گیا ۔ فوج تک میں اگنی ویر اسکیم کے تحت تین سال کی فوجی بھرتی کرکے سارا وقار کو ملیا میٹ کردیا ۔ فی الحال روس کی فوج میں شامل ہوکر یوکرین کے خلاف ہندوستانی نوجوان لڑ رہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ کل کو وہ چین کی فوج کا حصہ بن کر اپنی فوج کے خلاف برسرِ پیکار ہوجائیں ۔مودی سرکار کو ان سازشوں سے اطمینان نہیں ہوا تو ان لوگوں نے غیر پسماندہ اعلیٰ ذات کے مسکینوں کی خاطر دس فیصد ریزرویشن کا اہتمام کردیا۔ یہ حرکت ریزرویشن کی روح سے متصادم تھی کیونکہ اس کا مقصد غربت کومٹانا نہیں بلکہ پسماندہ طبقات کو آگے بڑھا کر سماجی مساوات کو فروغ دینا تھا۔مسلمانوں کی خوشنودی پر لن ترانی کرنے والے پسماندہ وزیر اعظم کی سرکار نے خود اپنے ہی سماج کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی منہ بھرائی کی۔ اس کے بعدان پسماندہ طبقات کو پھر سے محرومیت کے اندھیروں میں ڈھکیلنے کے لیے کریمی لیئر کی کہانی گھڑ کر انہیں آپس میں لڑانے کی سازش رچی گئی ۔ سپریم کورٹ کے دلت جسٹس گوائی نے ٹرین کے غیر محفوظ ڈبے کی مثال دے کر بتایا کہ جو اندر آگیا ہے وہ نئے آنے والے کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ یہ مثال کہتی ہے کہ سارے پسماندہ طبقات کے لیے جنرل ڈبے کے علاوہ کہیں اور جگہ نہیں ہے ۔ سارے ریزرو اور اے سی ڈبے نام نہاد اونچی ذات والوں کی میراث ہیں۔ ۔ کوئی ادھر نظر اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہ کرے ۔
مرکزی حکومت کی ایما پر یو پی ایس سی نے 45 اہم عہدوں(10 جوائنٹ سیکریٹری اور 35ڈائریکٹر/ ڈپٹی ڈائریکٹر) کیلئے اشتہار جاری کرکے ”ماہرین ” کے نام پر ‘لیٹرل اِنٹری’ کے ذریعہ نجی شعبے سے وابستہ افراد کی براہ راست تقرریوں کا فیصلہ کیا ہے لیٹرل انٹری تو سب سے خطرناک سمِ قاتل ہے ۔ اس سے قبل باسٹھ لوگوں کو لیا جاچکا ہے ۔ یہ لوگ بلا امتحان اور اہلیت کی جانچ پڑتال کے سرکاری ملازم ہوجائیں گے ۔ ملک کا غریب نوجوان سرکاری ملازمت امتحانوں کی تیاری میں ادھیڑ ہوجاتاہے مگر پیپر لیک کے سبب محروم ہی رہتاہے ۔ سرکاری بھرتی میں پچاس فیصد سے زیادہ اسامیوں کو پسماندہ طبقات سے لائق و فائق فرد کی عدم دستیابی کے بہانے دوسروں کو دے دیا جاتا ہے ۔ لیٹرل انٹری کی کئی وجوہات ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ سنگھ پریوار کے لوگوں میں امتحان پاس کرکے ملازمت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ مادھابی پوری بچ جیسے لوگوں کو لاکر ان کے ذریعہ اپنی بدعنوانی پر کی پردہ پوشی مقصود ہے ۔
لیٹرل انٹری پر ایوانِ زیریں میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے سخت ناراضی کا اظہار کرکے سیا سی گلیارے میں کھلبلی مچادی ۔ انہوں نے حکومت کے اس فیصلے کو او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی ریزرویشن کے خلاف بتاتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ راہل گاندھی نے ‘ایکس’ پر لکھا کہ ”لیٹرل انٹری دلتوں، او بی سی اور قبائلیوں پر حملہ ہے ۔ بی جے پی کے رام راجیہ کا تبدیل شدہ ورژن آئین کو تباہ کرنے اور ‘بہوجنوں’ سے ریزرویشن چھیننے کی سازش ہے ”۔ راہل کے مطابق ‘ سنگھ لوک سیوا آیوگ'(یوپی ایس سی) کی جگہ نریندر مودی نے ‘راشٹریہ سویم سیوک سنگھ’ کے ذریعہ سرکاری افسران کی بحالی کر کے آئین کو پامال کیاہے ۔ راہل گاندھی اپنے خطابات میں ہمیشہ ٹاپ بیوروکریسی سمیت ملک کے سبھی اعلیٰ عہدوں پر محروم طبقات کی عدم نمائندگی کا شکوہ کرتے ر ہے ہیں ۔ اس خرابی کو دور کرنے کے بجائے ‘لیٹرل انٹری’ کے ذریعہ انہیں اعلیٰ عہدوں سے اور بھی دور کیا جا رہا ہے ۔ راہل کی یہ الزام صد فیصد درست ہے کہ سرکار کا یہ قدم نہ صرف یو پی ایس سی کی تیاری کر نے باصلاحیت نوجوانوں کے حق پر ڈاکہ ہے بلکہ محروم طبقوں کے ریزرویشن اور سماجی انصاف کے تصور پر گہری چوٹ ہے ۔
راہل گاندھی نے اسے انتظامی ڈھانچے اور سماجی انصاف دونوں کو نقصان پہنچانے والا فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ ‘انڈیا اتحاد’ اس ملک مخالف قدم کی سختی سے مخالفت کرے گا۔ راہل گاندھی نے نجی سیکٹر سے آنے والی سیبی کی مثال دے کر کہا کہ انڈیا محاذ اس ملک دشمن اقدام کی سختی سے مخالفت کرے گا جس سے انتظامی ڈھانچے اور سماجی انصاف دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ آئی اے ایس کی نجکاری اورریزرویشن ختم کرنا مودی کی گارنٹی ہے ۔لیٹرل انٹری’ کے مسئلہ پر اکھلیش یادواور مایاوتی نے بھی مرکزی حکومت کے منشا کی مخالفت کی ۔ مایاوتی نے مرکزی حکومت کے اقدام کو غیرآئینی قرار دیا مگر اکھلیش یادو نے تو عوامی تحریک کی دھمکی دے دی ۔ اکھلیش یادو نے الزام لگایا کہ بی جے پی سازش کے
تحت اپنے نظریات کے حامل افراد کو’یوپی ایس سی’ جیسی اہم نوکریوں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر پچھلے دروازے سے لانا چاہتی ہے ۔ ان کے مطابق حکومت کا یہ قدم موجودہ افسران کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کا راستہ بند کر دے گا اورعام لوگ صرف بابوؤں اور چپراسیوں کی نوکری تک محدود ہوکررہ جائیں گے ۔اکھلیش یادو کے مطابق ۔ بی جے پی اپنے نظریات کے حامل عہدیداروں سے اپنی مرضی تھوپنا چاہتی ہے ۔ حکومت کی مہربانی سے اہم عہدوں پرفائزہنے والے کبھی غیر جانبدار نہیں ہوں گے اور ان کی دیانت داری پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گا۔ دوسروں کے استحصال پر منحصر یہ نظریہ قومی مفاد اور غریبوں، کسانوں، مزدوروں، ملازمت پیشہ افراد اور چھوٹی ملازمتیں و کاروبار کرنے والے عوام کے حقوق اور بہبود سے متصادم ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) کی قومی صدر مایاوتی نے بھی مرکز میں جوائنٹ سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری اور ڈائریکٹر کی ٤٥ خالی اسامیوں پر براہ راست بھرتی کی مخالفت کی ہے ۔ انہوں نے ‘ایکس ‘پر لکھاہے کہ ان پوسٹوں کوپہلے سے تعینات افسران کو ترقی دے کر پُر کیا جانا چاہئے اور ایس سیـایس ٹی اور پسماندہ طبقات کے لئے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے ان اسامیوں پرتقرر ہونا چاہئے ۔ مایاوتی کے مطابق ایسا نہ کرنا مرکزی حکومت کے ذریعہ آئین کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے ان عہدوں پر بھرتی کیلئے اصول و ضوابط کی پابندی اور مکمل شفافیت پر زور دیا۔
آر جے ڈی کے سربراہ لالو یادو نے مرکزی حکومت کو چیلنج کیا کہ وہ ‘ناگپوریہ ماڈل’ کو نہیں چلنے دیں گے ۔ لالو یادو نے اپنی پوسٹ میں لکھاکہ یونین پبلک سروس کمیشن اب نریندر مودی اور ان کے حلیفوں کی ہدایت پر بابا صاحب کے آئین اور ریزرویشن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سول سروس کے اہلکاروں کی جگہ پرائیویٹ سیکٹر سے جوائنٹ سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری اور ڈائریکٹر کی تقرری کررہاہے ۔ لالو نے وضاحت کی کہ اس عہدے کی خاطر کوئی بھی سرکاری ملازم درخواست نہیں دے سکتا،ہے اور اس میں آئین کے مطابق کوئی ریزرویشن نہیں ہے ۔لالو نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں لکھا کہ یہ بی جے پی کے ذریعہ اس کی نجی فوج یعنی کارپوریٹ میں کام کرنے والے ‘ خاکی پینٹ’والوں کا اہم عہدوں پر براہ راست تقرری کی کوشش ہے ۔ اس تقرری میں چونکہ دلت، پسماندہ طبقات، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملے گااس لیے یہ محروم طبقات کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے متراد ف ہے ۔مودی سرکار اپنی اس حماقت پورے حزب اختلاف کو متحد کردیا ہے اور اس کی یہ حرکت سیاسی خودکشی کے ہم پلہ ہے ۔ سوال یہ ہے اور سنگھ پریوار جیسی تحریک کو سرکاری ملازمین پر انحصار کرنے محتاجی کیوں آن پڑی ؟ دراصل دس سالہ اقتدار کی عیش عشرت نے ان لوگوں سے قوت عمل چھین لی ہے اور یہ زمین سے کٹ گئے ہیں بقول وسیم بریلوی
ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو