میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
22 اگست کے بانی متحدہ کے خطاب کو ایک سال گزرنے کے باوجود ان کا سایہ کراچی کی سیاست سے ختم نہیں ہوا

22 اگست کے بانی متحدہ کے خطاب کو ایک سال گزرنے کے باوجود ان کا سایہ کراچی کی سیاست سے ختم نہیں ہوا

ویب ڈیسک
منگل, ۲۲ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بڑی حد تک ایم کیوایم کا ورثہ سنبھالے رکھا ہے، اگلے انتخابات تک یہ ایک امتحان ہوگا
رپورٹ :نجم انوار
آج 22 اگست 2017 ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال قبل بانی متحدہ کی پاکستان مخالف تقریر نے ایم کیوایم کی سیاست کو بدلنے میں بنیادی کردار اداکیا۔ بانی متحدہ کی جانب سے 22 اگست 2016 کو پاکستان مخالف تقریر کے فوراً ہی بعد سب کویہ یقین تھا کہ اب ایم کیوایم کی سیاست میں بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ مگر اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تاحال بانی متحدہ کا سایہ کراچی کی سیاست پر منڈلا رہا ہے۔ بانی متحدہ کی اس دل آزار اور خود ایم کیوایم کے لیے بھی ناقابل دفاع تقریر میں کیا کہا گیا تھا ، پہلے ذہنوں میں تازہ کرلیتے ہیں۔
بانی متحدہ نے کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیوایم کے کارکنوں کی گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب میں نہ صرف پاکستان مخالف نعرے لگائے بلکہ وطن ِ عزیز کو پوری دنیا کے لیے ایک "ناسور” قرار دیا۔
بانی متحدہ کی تقریر کے فوراً بعد ضلع جنوبی کے کچھ علاقوں میں پرتشددواقعات سامنے آئے جس کا براہِ راست تعلق بھی اْن کے خطاب سے تھا۔ تشدد کے واقعات کے فوراً بعد اْن کی تقریر کے کچھ حصے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کرنے لگے۔ بانی متحدہ نے اپنے خطاب میں یہ دل آزار جملے کہے تھے کہ "پاکستانپوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے دہشت گردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد۔”
بانی متحدہ کی جانب سے اس دل آزار اور ہر محب وطن کے سینے میں برچھی بن کر اْترنے والے الفاظ کے بعدبھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرنے پر اْن کے اگلے اقدام کے بارے میں پوچھا گیا کہ "کیا تم لوگ یہاں سے اے آر وائی اور سماء کے دفاتر جارہے ہو؟”یہ واضح طور پر تشدد پر اْکسانے والا سوال تھا۔ اس پر وہاں موجود ایم کیوایم کے کارکنان نے بلند آہنگ سے مثبت جواب دیا۔ یہاں پر بانی متحدہ نے بس کیا بلکہ مزید کہا کہ "آج تم لوگ سماء￿ اور اے آر وائی جارہے ہو اور پھر کل اپنے آپ کو رینجرز ہیڈ کوارٹر جانے کے لیے تیار کرو، کل ہم سندھ سیکریٹریٹ کی عمارت کو تالا لگوادیں گے۔”بانی متحدہ کی تشدد کی جانب مائل کرنے والی گفتگو اور ہدایات کے بعد کارکنان خصوصاً خواتین خاصی مشتعل ہوگئیں۔ اْن کی جانب سے جذباتی آوازیں بلند ہوئیں۔ یہاں تک کہ یہ نعرہ پرجوش انداز سے لگتا رہا کہ "بھائی کا ہو ایک اشارا، حاضر حاضر لہو ہمارا”۔
ایسی ویڈیوز دستیاب ہیں جس میں اے آر وائی پر حملے اور توڑ پھوڑ سے قبل ایم کیوایم کے کارکنان سے بانی متحدہ براہِ راست ٹیلی فون پر بات چیت کررہے ہیں۔مثلاً ایک خاتون یہ کہہ رہی تھی کہ "بھائی ہمیں بس آپ کا اشارہ چاہیے اور کچھ نہیں”۔جس پر بانی متحدہ نے کہا کہ "بسم اللہ، بسم اللہ ، بسم اللہ”۔یہ الفاظ ایک پرتشدد واقعے کی تحریک میں پراثبات حکم کے مترادف قرار دیے گئے۔کیونکہ بانی متحدہ کے اس جواب کے بعد یکایک ہڑتالی کیمپ کے کارکنان اور مظاہرین نعرے لگاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور بھوک ہڑتالی کیمپ سے اے آر وائی کے دفتر روانہ ہو گئے۔ اس دوران میں مختلف خواتین کی جانب سے اپنے پرتشدد اقدام کے حوالے سے بانی متحدہ کو باخبر بھی کیا جاتارہا۔
بانی متحدہ کا یہ دل آزار اور سینے میں تیر کی طرح پیوست ہونے والا خطاب خود اْن کے اور اْن کی سیاست کے لیے ایک خود کش حملہ ثابت ہوا ، اور اْن کا کردار کراچی میں تیزی سے سمٹتا ہوا دکھائی دینے لگا۔
خطاب کے بعد
ایم کیوایم کا ردِ عمل
بانی متحدہ کے خطاب کے بعد ایم کیوایم کے مشتعل کارکنان ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کے مرتکب ہوئے۔ اْنہوں نے اے آر وائی کے دفتر میں گھس کر نعرے بازی کی ، توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران میں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک بھی ہوگیا۔
اس دوران میں ایم کیوایم کی جانب سے جو تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے والوں کو مہیا کی جاتی رہیں وہ غیر قانونی اور امن دشمن سرگرمیوں کی چغلی کھاتی تھیں۔ ایم کیو ایم کے مشتعل کارکنان اے آر وائی کے دفتر میں داخل ہوئے، ملازمین کو ہراساں کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔اس کی خود اے آروائی پر چلنے والی فوٹیج میں مشتعل افراد کو دفتر میں گھستے اور توڑ پھوڑ کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔اس دوران مشتعل افراد کی بڑی تعداد زینب مارکیٹ کے اطراف بھی موجود تھی جنہیں گورنر ہاؤس کی جانب جانے سے روکنے کیلئے پولیس نے شیلنگ کی تھی۔جس کے جواب میں پولیس پر پتھراؤ کیا گیا اور تمام تجارتی مراکز بند کرادیے گئے۔
رینجرز حرکت میں آگئی
کراچی میں افراتفری اور بدترین ہنگامہ آرائی کے اس ماحول میں رینجرز حرکت میں آگئی۔ تب کے ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر نے اپنا پہلا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حملہ کرنے والوں کو ایک ایک سیکنڈ کا حساب دینا ہوگا۔ شہریوں کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔
رینجرز نے اپنے اگلے اقدام میں ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو کا طویل محاصرہ کیا اور اطراف کی عمارتوں کی بھی پڑتال کی۔ رینجرز کی جانب سے نائن زیرو کے ساتھ ساتھ ایم پی اے ہاسٹل اور خورشید بیگم میموریل ہال کی بھی تلاشی لی گئی۔ بعدازاں رینجرز نے ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو کو سیل کردیا۔ ساتھ ہی رینجرز کی جانب سے کراچی بھر میں ایم کیوایم کے سیکٹر اور یونٹ کے دفاتر کا محاصرے کرتے ہوئے تلاشی کا ایک وسیع تر عمل شروع کردیا گیا۔ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایم کیوایم کے سیکٹراور یونٹ کے دفاتر پر بھی تالے پڑنے لگے۔ ایم کیوایم کے خلاف کارروائی کا دائرہ کراچی سے آگے بڑھا کر حیدرآباد تک وسیع کردیا گیاتھا۔
رینجرز کی جانب سے اس دروان میں ایم کیوایم کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور پھر رہائی کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔اے آر وائی پر حملے کے کچھ گھنٹوں بعد رینجرز نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو حراست میں لینا شروع کردیا تھا اور سب سے پہلے رکن قومی اسمبلی فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو کراچی پریس کلب کے باہر سے حراست میں لیا گیا تھا۔دونوں رہنما پریس کانفرنس کے لیے وہاں پہنچے تھے تاہم رینجرز اہلکاروں نے انہیں پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی اور اپنے ساتھ لے گئے تھے۔یہ ایک بنیادی نوعیت کا واقعہ تھا۔
بانی متحدہ کے خطاب کے بعدتیزی سے بدلتے حالات میں جو جو واقعات رونما ہوتے رہے اْن میں نائن زیرو اور دیگر دفاتر کی بندش ، ایم کیوایم کی ویب سائٹ کی بندش، مختلف رہنماوؤں کی گرفتاری ورہائی اور کچھ رہنماوؤں کی جانب سے ایم کیوایم سے اظہارِ لاتعلقی کے اعلانات وغیرہ شامل ہیں۔
…اِدھر ہم ، اْدھر تم…
فاروق ستار نے لکیر کھینچ دی
ڈاکٹر فاروق ستار نے رہائی کے بعد پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ہم پہلے بھی پریس کانفرنس اس لیے کرنے آئے تھے کہ بانی متحدہ کے خطاب سے اعلان برات کریں۔ مگر ہمیں رینجرز نے پریس کانفرنس نہیں کرنے دی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے پہلی مرتبہ واضح طور پر ایم کیوایم کے قائد سے اپنے راستے الگ کییا ور اْن کے لیے قائد تحریک کے بجائے بانی متحدہ کی اصطلاح استعمال کی جو پورے ملک میں رائج ہوگئی۔ الطاف حسین کی تصویر اور خبروں کی اشاعت پر پابندی کے بعد اْن کا ذکر بانی متحدہ کے حوالے سے ہی ہونے لگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے واضح طور پر ایک لکیر کھینچ دی اور کہا کہ 22 اگست کے بعد ہمارے راستے بانی متحدہ سے الگ ہو گئے۔ اور پاکستان میں موجود ایم کیوایم کا اب لندن میں موجود ایم کیوایم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس طرح اْنہوں نے ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے حوالے سے ایک لکیر کھینچتے ہوئے "اِدھر ہم اور اْدھر تم ” کا نعرہ عملاً لگادیا تھا۔
ایم کیوایم پاکستان کی سیاست اور آج کے اندیشے
اگرچہ ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے راستے کو جدا ہوئے آج ایک برس ہو رہا ہے۔ اس دوران کراچی کی سیاست میں خاصی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور کراچی میں سرگرم دیگر رہنماوؤں کو اب یہ یقین بھی حاصل ہونے لگا ہے کہ وہ بانی متحدہ کے بغیر بھی کراچی کی سیاست میں خود کو متعلق رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اْنہیں یہ فائدہ بھی حاصل رہا ہے کہ بانی متحدہ کے بغیر کراچی میں سرگرم ایم کیوایم کی سیاست سے جڑی جماعتوں میں یہ اْن کی ہی جماعت ہے جو اس پورے ورثے کی حامل سمجھی جارہی ہے جو بانی متحدہ نے چھوڑا ہے۔ اس طرح وہ بانی متحدہ کے بغیر ایم کیوایم کے تمام نشانات ، علامتوں ، نعروں اورفارمولوں کو جوں کا توں استعمال کررہے ہیں۔تما م ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کے ساتھ ایم کیوایم کی پوری سیاست ان کے ہی تصرف میں ہیں۔مگر اس کے باوجود بعض سوالات ابھی تک کراچی کے مختلف حلقوں میں زیربحث ہیں اور ایک سال گزرنے کے باوجود اس کے تسلی بخش جوابات کسی کونہیں مل سکے۔
٭کیا بانی متحدہ کی سیاست کا سورج کراچی کے لیے ہمیشہ غروب ہو چکا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کی بدلتی ہوئی حکمت عملی یا پھر خود اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کے لیے جس نوع کی مقبول قیادتوں کی ضرورت رہتی ہے بانی متحدہ اس نوع کی کوئی ضرورت دوبارہ تو نہیں بن جائیں گے۔ بانی متحدہ کے مستقبل کے حوالے سے ایک حتمی اور فیصلہ کن اطمینان تاحال خود ایم کیوایم کے اپنے حلقوں میں بھی پیدا نہیں ہوسکا۔
٭ایم کیوایم پاکستان 22 اگست کو بانی متحدہ کے خطاب سے قبل کی ایم کیوایم کا ورثہ کب تک سنبھال پائے گی؟ اگلے انتخابات تک کیا وہ اس پورے سیاسی ورثے کو سنبھال کر لے جانے میں کامیاب رہے گی؟ یہ اندیشے اس لیے بھی موجود ہے کہ موجودہ ایم کیوایم پاکستان کیساتھ بہت سیایسے رہنما بھی منسلک ہیں جو اپنی سیاسی پوزیشن کے باعث کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں اس وقت نہیں۔ وہ جب اپنے مناصب پر نہیں ہوں گے تو ایم کیوایم پاکستان کیساتھ اْن کی وابستگی کی نوعیت موجودہ منہج پر برقرار بھی رہ سکے گی یا نہیں۔
٭ ایم کیوایم سے کسی نہ کسی طور وابستہ رہنے والوں میں جو قوتیں کراچی میں ان دنوں سرگرم ہیں، اْن میں مہاجر قومی موومنٹ ، پاکستان سرزمین پارٹی اور ایم کیوایم پاکستان شامل ہیں۔ کیا یہ جماعتیں منقسم رہ کر ہی بروئے کار آئیں گی یا کسی مشترک ایجنڈے پر کوئی تال میل پیدا کرسکتی ہے؟ یہ سوال سب سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے مگر اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
٭ یہ اور اس نوعیت کے بہتیرے سوالات کے درمیان ایک اندیشے کے طور پر یہ پہلو سب سے زیادہ حاوی رہتا ہے کہ کیا ایم کیوایم لندن اور بانی متحدہ اپنے بغیران تمام سیاسی سرگرمیوں کو جاری رہنے دیں گے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ بانی متحدہ خود کراچی میں براہِ راست رابطوں کے ساتھ ہروقت کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس امر کے اشارے موجود ہیں کہ وہ اگلے انتخابات تک ایک بڑے کھیل کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف وہ بیرونی حمایت کے ذریعے کراچی میں سیاست کے لیے اپنی کھڑکی کھولنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف وہ پاکستان کے اندر مختلف قوتوں کو دباؤ میں بھی لینا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ کسی بھی اقدام سے دریغ نہ کرنے کا واضح اشارا بھی دے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اْن کی پاکستان مخالف امریکی سینیٹر اور خان آف قلات سے ملاقاتوں کی تصاویر نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پانی سر سے اتنا گزرنے کے باوجود نچلے بیٹھنے کو تیار نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں