میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مرادعلی شاہ کرپشن سسٹم کی سندھ اسمبلی میں گونج

مرادعلی شاہ کرپشن سسٹم کی سندھ اسمبلی میں گونج

ویب ڈیسک
منگل, ۲۲ جون ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ: علی کیریو)سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے کرپشن سسٹم کی گونج سنائی گئی، پیپلز پارٹی ملیر کے رہنما نے ملیر کی زمین کے لیزمقامی لوگوں کو دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے بحریہ ٹائون کو تحفظ دینے کا اعلان کردیا ہے، جبکہ بجٹ اجلاس کے دوران اہم وزیر چلے گئے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی ایم پی اے رابستان خان نے کہا کہ پی ایس 122 میں سال 2008ء میں پیپلز پارٹی ایم این اے شیر محمد بلوچ نے اسکول، اسپتال، عید گاہ اور فوٹ بال گرائونڈ کا افتتاح کیا لیکن سرزمین پراسکیموں کی بدترین حالت ہے ، لیاری ری سیٹلمنٹ پروجیکٹ کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی حالت زار ہے، گلشن معمار میں پانی کی اسکیم مکمل ہوگئی ہے لیکن پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے، ایم ڈی سے بات کی ہے تو سسٹم کی بات کرتے ہیں، گبول گوٹھ میں پانی کی اسکیم مکمل ہے لیکن پانی فراہم نہیں ہوتا، ہر جگہ سسٹم چلتا ہے، محکمہ تعلیم اور صحت میں وزیراعلیٰ سندھ نے ایمرجنسی لگائی لیکن سندھ کی جامعات ایک ہزار یونیورسٹیز کی جامعات کی فہرست میں شامل نہیں ، ایمرجنسی تو لگادی جاتی ہے لیکن وزیر سسٹم سے چلنے والے کو لگایا جاتا ہے،پبلک ہیلتھ کے افسران سے گبول گوٹھ میں پانی اسکیم کے بارے میں بات کی تو کہتے ہیں کہ یہ سسٹم کا کام ہے، سسٹم وزیراعلیٰ سندھ مراد شا ہ نے بچھایا ہوا ہے، مراد شاہ کے سسٹم کے تحت اس کے ذاتی ملازمین پیسے لیتے ہیں، پیسے وزیراعلیٰ سندھ کو دیئے جاتے ہیں اور بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ رابستان خان کے سسٹم کے لفظ پر اسپیکر نے کہا کہ سسٹم کس کا ہے ؟ جواب میں رابستان خان نے کہا کہ سسٹم آصف زرداری کا ہے، جس پر پیپلز پارٹی ارکان نے شور کیا ، بعد میں رابستان خان نے کہا کہ وہ قیادت پر الزام نہیں لگاتے، سسٹم وزیراعلیٰ سندھ کا ہے۔ جمال صدیقی نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کی مدت ختم ہونے کے بعد کے ایم سی میں سرکاری کارٹونوں کو ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا ہے، نالائق ڈپٹی کمشنرز ایڈمنسٹریٹر ز بنے ہوئے ہیں اور عوام کے مسائل میں دلچسپی نہیں لیتے، ان کی دلچسپی کراچی کی قیمتی زمین تلاش میں ہے، شہید بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے نام پر اعلان کردہ منصوبے صرف کاغذوں میں موجو دہیں۔ ادیبہ حسن نے کہا کہ سندھ کی معیشت کا بڑہ حصہ زراعت سے وابسطہ ہے لیکن بجٹ میں غریب کسانوں کو نظرانداز گیا ہے، کسانوں کو مہنگی کھاد پر سبسڈی نہیں دی جاتی، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو ہر سال سبسڈی دی جاتی ہے لیکن کراچی میںہر جگہ کچرہ نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی ملیر کے رہنما اور ایم پی اے راجا رزاق نے کہا کہ ملیر میں آباد لوگوں کو زمینوں کی لیز دی جائے تاکہ ملیر کی زمینیں بلڈر ز سے محفوظ رہ سکیں، بلدیہ فیکٹری میں سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلانے والے بحریہ ٹائون کے وکیل بن جاتے ہیں ، ہم بحریہ ٹائون اور متاثرین کے حقوق کا تحفظ کریں گے، سندھ میں لسانی سیاست اور بھائی کو بھائی سے لڑانے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو پانی دو کے نعرے لگانے والوں کو یہ خبر نہیں کہ کراچی کو پانی کہاں سے ملتا ہے ؟ شہر کو پانی سمندر سے نہیںلیکن دریائے سندھ سے فراہم کیا جاتا ہے، اگر دریائے سندھ میں پانی نہیں ہوگا تو کراچی بھی پیاسا رہے گا اس لئے دریائے سندھ کے پانی کے لئے آواز بلندکرنی چاہیئے، سندھ پورے پاکستان کو روینیو دے کر پال رہا ہے اس لئے سندھ کو حق دو۔ شرمیلا فاروقی نے کہا کہ سندھ میں غربت کی شرح میں 7 فیصد کمی اور خیبر پختونخوا میں غربت کی شرح میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے، وفاقی حکومت نے سندھ کو بہت کم ترقیاتی اسکیمیں دی ہیں، عالمی اداروں نے کورونا کے بعد 150 ارب روپے فراہم کئے یہ رقم کہاں گئی ؟ وزیراعظم کا 4 سو ارب کا کراچی پیکیج کہاں پر خرچ کیا جا رہا ہے؟ اس کے بعد ایک ارب 2کروڑ کا پیکیج کہاں گیا ؟ آگ بجھانے والے فائر ٹینڈر ز کہاں گئے ؟ چینی، گندم ، گیس، سلائی مشین کی چوری الگ ہے ۔ دوسری جانب وزیرتعلیم سعید غنی، پبلک ہیلتھ کے وزیر شبیر بجارانی، سردار شاہ کچھ دیر بعد اجلاس سے چلے گئے، وزیر صحت عذرہ پیچوہو، وزیربلدیات سید ناصرشاہ، وزیر روینیو مخدوم محبوب الزمان، وزیر آبپاشی سہیل انور سیال، وزیر فشریز عبدالباری پتافی اہم بجٹ اجلاس سے غیر حاضر رہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں