میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاپتا بلوچ طلبہ کیس ،ایجنسیز کے کام کا طریقہ کار واضح ہوجائے تو اچھا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

لاپتا بلوچ طلبہ کیس ،ایجنسیز کے کام کا طریقہ کار واضح ہوجائے تو اچھا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۲ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا بلوچ طلبہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایجنسیز کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اس کے علاوہ گمشدہ بلوچ طلبہ کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے لاپتا افراد کی کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ دس سال میں کتنے لوگ گرفتار ہوئے ؟ لاپتا ہوئے یا ہراساں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کرسکتیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایجنسیز کے کام کرنے کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا، قانون میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )اور پولیس تفتیش کرسکتی ہیں، تاہم ایجنسیز تفتیش میں معاونت کرسکتی ہیں، ہمیں قانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہے ، کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ صحافی ہو یا پارلیمنٹرین وہ دہشت گردوں کی سپورٹ نہیں کر رہا ، کوئی بھی شخص اداروں کو قانون کے مطابق کام کرنے سے نہیں روکتا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک سیاسی طور پر س معاملے کو حل نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو گا، جسٹس محسن اختر نے بتایا کہ مطلب یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلانا کہ وہ آ کے معاملہ حل کرے ، غلطیاں ہوتی ہیں تو غلطیوں سے سیکھ کر آ گے بڑھنا ہوتا ہے ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ 21 ویں سماعت ہو رہی ہے، آپ کی محنت سے کئی طلبہ بازیاب ہوئے ہیں ۔اس موقع پر بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا ، لاپتا افراد کی کمیٹی بنائی گئی تاہم کمیٹی میں سے لواحقین سے ملنے کوئی بھی نہیں گیا، کمیشن بنا دی گئی لیکن کوئی بھی پیش رفت نہیں ہے ، لاپتا افراد کے لواحقین کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔محسن اختر کیانی نے وکیل ایمان مزاری سے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق جو معلومات عدالت کے سامنے پیش کی گئیں وہ درست نہیں ہیں؟ ہمیں اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہوگا ، اٹارنی جنرل کی کاوشوں سے بہت سے لاپتا افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں ، جب تک لاپتا افراد کے کیسز آتے رہیں گے یہ عدالتیں کام کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے ، تنقید ہوتی رہتی ہے ، ایمان مزاری کو بھی کچھ نا کچھ کہا گیا ہوگا، جو پریس کانفرنس کرتا وہ کرتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا کو اس معاملے میں ساتھ دینا چاہیے تاکہ منفی چیزیں اجاگر نہ ہوں ، جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے میڈیا آزاد ہے اور ان لوگوں کی نشاندہی پر ہی کام ہوتے ہیں، ملک کے ایک کونے سے بندہ غائب ہوتا ہے تو میڈیا کی نشاندہی کی وجہ سے بعض اوقات مل جاتا ہے ، بلوچستان کے لوگ بھی پاکستانی ہیں ، ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے ۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاپتا افراد سے متعلق معاملے کو کابینہ اجلاس کے اگلے 2 اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو کی کمیٹی میں بھی تبدیلی کریں، اس کمیٹی میں ڈی جیز لیول سے نیچے کے لوگ ڈالیں تاکہ مواصلات میں آسانی ہوبعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سے مکالمہ کیا کہ میں آرڈر جاری کروں گا، وہ آپ دیکھ لیں، اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ آپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ بہت مشکل سوال ہے ، اس معاملے کو اگر حل نہیں کیا تو مسائل بڑھیں گے ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور لاپتا افراد سے متعلق کیس ہے اس میں بھی آپ آئیں، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں اسی کیس میں ضرور آؤں گا۔بعد ازاں عدالتی سوالنامہ کے جوابات آئندہ سماعت پر جمع کرنے کی ہدایت کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں