اتحادی سیاست
شیئر کریں
سیاسی پنڈتوں کے مطابق 2017ءانتخابات کا سال ہو سکتا ہے اگر اس سال انتخابات نہ بھی ہوں تو بھی 4 جون2018 ءکو مسلم لیگ کی حکومت کی مدت کار مکمل ہو جائے گی اور اس کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری ہو گا ،یوںآئندہ انتخابات زیادہ سے زیادہ 3 ستمبر2018ءتک منعقد ہونا ضروری ہےں ۔
سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے او راتحادوں کی تشکیل کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیرصاحب پگارا سندھ کی سطح پر اینٹی پی پی اتحاد کی تشکیل میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں اینٹی پی پی اور اینٹی مسلم لیگ (ن) اتحادوں کی تیاریاں بھی کر رہی ہیں۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کی بحالی بھی زیر غور ہے، اس بحالی میں ایک بڑی روکاٹ بھی موجود ہے کہ جمعیت علماءاسلام (ف) اس وقت دہری پالیسی پرعمل پیرا ہے ، ایک جانب اس کے ارکان وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے تعین کے لیے جمع کرائی گئی درخواست پر جمعیت علماءاسلام نے پیپلزپارٹی کے سید خورشید احمد شاہ کی حمایت کی تھی۔ یوں جمعیت علماءاسلام بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کا حصہ ہے اور مولانا فضل الرحمن گزشتہ تقریباً ربع صدی سے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئر مین چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں اتحادی سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے ،قیام پاکستان کے صرف پانچ سال بعد مشرقی پاکستان میں ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اور ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے اتحاد بنایا تھا، لیکن یہ اتحاد زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور 1953ءکے انتخابات سے قبل ہی ختم ہو گیا۔1953 ءمیں دی یونائیڈ فرنٹ ،عوامی مسلم لیگ ،نظام اسلام پارٹی، جنتادل اور کوشک پراجا پارٹی نے جگتو فرنٹ بنایا اس فرنٹ نے 1953ءکے صوبائی انتخابات میں مشرقی پاکستان کی 232 نشستوں میں سے 223نشستوں پرکامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ کے حصہ میں صرف 9 نشستیں آ سکیں۔جگتو فرنٹ کی سربراہی عوامی مسلم لیگ کے حسین شہید سہروردی کر رہے تھے لیکن یہ اتحاد بھی حکومت میں اتحادی پارٹیوں کی حصہ داری کی نذر ہو گیا ۔
1955ءمیں مغربی پاکستان میں ون یونٹ کا قیام عمل میں آیا اور 26-27 اگست 1955ءکو طویل مشاورت کے بعد اینٹی ون یونٹ ویسٹ پاکستان کنونشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کنونشن میں جی ایم سید ،حیدربخش جتوئی،شیخ عبدالمجید سندھی، غلام مصطفی بھرگڑی،عبدالحفیظ لاکھو،ڈاکٹر گل محمد، سید علی مطاہر،غلام محمد خان،خان عبدالولی خان، عبدالصمد اچکزئی،ارباب سکندر خان،شمیم جان خان،پیرالہیٰ بخش،قادر بخش نظامانی، عبد القادر کھوکھر،عبدالواحد سومرو،محمد ہاشم گدرو،علی نواز وفائی اور دین محمد علی بھی شامل تھے یہ ایک انتخابی نہیں بلکہ صوبوں اور ریاستوں کی خودمختاری پر ہونے والے حملے کا ردعمل تھا،تحریک چلی، لیکن اسی عرصہ میں مارشل لاءنافذ ہو گیا اور ایوب خان کی ڈکٹیٹرشپ میں یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔ 1958ءہی میں ایوب کھوڑو ، جی ایم سید،حفیظ قریشی، رسول بخش پلیجو اور میر علی بخش تالپورنے ایک اتحاد کی تشکیل کی، لیکن ایوب خان نے ایوب کھوڑو پر دس سال تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ جی ایم سید ،حسین شہید سہروردی کی عوامی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ،رسول بخش پلیجو نے کمیونسٹ خیالات کی طرف رجوع کیا، یوں یہ اتحاد بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ 1964ءمیں صدارتی انتخابات کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں ایک اتحاد وجود میں آیا جس کا مقصد ملک سے ایوب خان کی آمریت کاخاتمہ تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح بابائے قوم کے انتقال کے بعد سیاست سے لاتعلق ہو گئی تھیں اور سماجی رابطے کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے سماجی خدمات کی طرف رجوع بڑھا دیا تھا، جس میں آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن سرفہرست ہے، محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں بننے والا یہ اتحاد تو بہت بھرپور تھا لیکن اس وقت ایوب خان کو ذوالفقار علی بھٹو جیسے شاطر کی خدمات حاصل تھیں، جس نے اسلامی مملکت میں خواتین کی حکمرانی پر سوالات اُٹھائے اور انتخابات میں کامیابی کے وہ گر استعمال کیے کہ بنیادی انتخابات میں تو فاطمہ جناح کے حامی بی ڈی ممبرز کی تعدادایوب خان کے حامی ممبرز کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن جب صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو جھرلو پھر گیا اور لالٹین پر لگائے گئے نشانات جادوی اثرات کے تحت گلاب کے پھول کی طرف منتقل ہو گئے اور فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان نے صدارتی انتخاب ” جیت لیا“ ۔
1967ءمیں نوابزادہ نصراللہ خان نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنائی، اس میں پانچ پارٹیاں شامل تھیں اور اس کامقصد ایوب خان کی آمریت کو رخصت کرنا تھا۔ بعدازاں ایوب خان کی آمریت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو بھی میدان میں نکل آئے یہ وہی ذوالفقار علی بھٹو تھے جو 1966ءکے اوائل تک ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے، لیکن جب وزارت سے برطرف کیا گیا تو ڈیڈی ،ڈوگی ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے نوابزادہ نصراللہ خان کی شروع کی ہوئی تحریک کو ہائی جیک کر لیا۔ یوں مارچ 1969 ءمیں ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو قوم پر ایک اور آمریت مسلط ہو گئی۔ 1963ءکادستور اپنے خالق کی حفاظت بھی نا کرسکا اورایوب خان کی رخصتی کے ساتھ ہی یہ دستور بھی منسوخ قرار پایا اور جنرل آغا محمد یحیٰ خان نے ملک میں مارشل لا لگاتے ہوئے آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ۔آغا محمد یحیٰ خان کا یہ دور سیاست میں وقت کے مطابق رنگ بدلنے والوں کے لیے تو بہت خوشگوار دور تھا کہ آغا محمد یحیٰ خان کی انا پرستی نے ان کے اقتدار کی کبھی نہ پوری ہو سکنے والی خواہش کو پورا کر دیا تھا، لیکن یہ دور پاکستان کے لیے انتہائی سیاہ دور ہے اسی دور میں مشرقی پاکستان میں پاکستان زندہ باد کانعرہ لگانے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما اور ڈھاکا یونیورسٹی کے طالب علم عبدالملک کو پلٹن میدان میں عوامی لیگی غنڈوں نے لوہے کی سلاخیں مار مار کر شہید کر دیا۔ یہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کا نقطہ آغاز تو نہ تھا لیکن اس قتل نے بتا دیا تھا کہ علیحدگی پسند اب اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی گریز کرنے کے لیے تیار نہیں اور حکومت خاموش تماشائی ہے 16دسمبر1971 ءکا سیاہ دن یحیٰ خان کے دور اقتدار ہی میں آیا تھا۔
سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان ایک جانب مایوسی کی دلدل میں گھرا ہوا تھا تو دوسری جانب فوج کا مورال بھی ٹوٹ چکا تھا، ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گل حسن کی حمایت سے یحیٰ خان کا پتہ صاف کیا تو پھر چند دن بعد جنرل گل حسن بھی ان کا نشانہ بنے اور ٹوٹتے فوجی مورال کو مزید دھچکا لگا، لیکن فوج میں برداشت کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے وہ اس صدمے سے بھی نکل آئی لیکن اس عرصہ میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے پاو¿ں مضبوط کر چکے تھے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری آمریت اپنے عروج پر تھی اور اس نے اپنے خیال میں اپوزیشن کو خواب غفلت میں دبوچ لیا تھا، جنوری1977 ءمیں ذوالفقار علی بھٹو نے اچانک عام انتخابات کا جال ڈال کر سمجھا تھا کہ اپوزیشن کے لیے ان انتخابات میں اس کا مقابلہ کرنا تو بڑی چیز میدان میں آنا بھی مشکل ہو گا لیکن اپوزیشن نے وہ چال چلی تھی کہ جس کا اندازہ بھٹو جیسا زیرک سیاستدان بھی نہ کر سکاتھا اپوزیشن کے درمیان رابطے جاری تھے اور پاکستان قومی اتحاد غیراعلانیہ طور پر وجود میں آچکا تھا، الیکشن کے اعلان کے بعد اپوزیشن لیڈروں کے چند رسمی اجلاس ہوئے اور پیرصاحب پگارا کی سربراہی میں پاکستان قومی اتحاد کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اتحاد کے پہلے جنرل سیکریڑی جمعیت علماءپاکستان کے رفیق احمد باجوہ تھے لیکن بعدازاں انہیں اس عہدے سے رخصت ہونا پڑا کہ معاملات اس جانب چلے گئے تھے کہ جہاں ان کی رخصتی کو برداشت کرنا جمعیت علماءپاکستان کی مجبوری تھی ۔
پاکستان قومی اتحاد کے قیام کے ساتھ ہی الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی گئیں اور امیدواروں کی فہرستیں بھی فائنل ہو گئیں۔ لاڑکانہ سے جان محمد عباسی نے ذوالفقار علی بھٹو کامقابلہ کرنا تھا لیکن بھٹو کے سر پرایک بھوت سوار تھا کہ اسے اپنی مقبولیت ظاہر کرنی ہے اور چاروں صوبوں کے مختلف حلقوں سے بلامقابلہ منتخب ہونا ہے اس کے لیے مقامی انتظامیہ کا سہارا لیا گیا اور جان محمدعباسی کوعملاً اغوا کر کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے روکا گیا اور اس میں اس وقت کے لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد احمد کھرل کا اہم کردار تھا۔ خالد احمد کھرل کو بعد میں کس طرح نوازا گیا یہ ایک علیحدہ داستان ہے، جب وزیراعظم نے بلامقابلہ منتخب ہونے کا خواب دیکھا تو صوبائی وزرائے اعلیٰ کیونکر اس خواب کی لذت سے محروم ہو سکتے تھے، یوں وزرائے اعلیٰ نے بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر یہ معاملہ وفاقی اورصوبائی ورزاءتک بڑھتا چلا گیا۔ کسی نے مخالف امیدوار کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا تو کسی نے کاغذات نامزدگی جمع کروانے والوں کوکاغذات واپس لینے پر مجبور کر دیا ،یوں ذوالفقار علی بھٹو ،ان کی کابینہ کے اکثر ارکان اور صوبائی وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ارکان کی اکثریت نے انتخابی جھنجھٹ میں پڑنے کی تکلیف گوارا نہ کی ۔1977ءکے عام انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد قومی اسمبلی کی صرف 39 نشستوں پر کامیاب ہو سکا تھا، اس وقت قومی او رصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے درمیان تین سے چار دن کا وقفہ ہوتا تھا اور 7 مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد 10 مارچ کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونا تھے لیکن اس سے قبل ہی پاکستان قومی اتحاد نے انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی مہم شروع کر دی تھی۔ یوں 10 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں پولنگ اسٹیشن پر محاروةً الو بھی نہیں بول رہے تھے لیکن جب نتائج آئے تو ہر صوبائی اسمبلی میں قومی اسمبلی کی سیٹ سے زیادہ ووٹ نکل آئے، اس کے بعد قومی اتحاد کی تحریک نے ایک نیا رخ لیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا بلکہ عبرتناک انجام سے بھی دوچارہونا پڑا۔
(جاری ہے)