میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (پہلی قسط

سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (پہلی قسط

منتظم
هفته, ۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mufti-waqas-rafi
مفتی محمد وقاص رفیع
تاریخ عالم کا ورق ورق انسان کے لیے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لیے ایسے عبرت ناک ہیں کہ جن سے صَرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ انہی واقعات میں سے ایک واقعہ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت تک کوئی ایسا واقعہ رونما ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے حیائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے دردناک والم ناک واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج ہم جیسے لوگوں کے لیے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ اور ان کے ۷۰، ۷۲ متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلے میں ثابت قدمی اور جان نثاری ایسا محیر العقل واقعہ ہے کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے ۔
حضرات اہل بیت شروع سے ہی اپنے آپ کو خلافت کا زیادہ حق دار سمجھتے تھے ۔ حضرت معاویہؓ کی وفات کے بعد تخت خلافت جب خالی ہوا تو یزیدنے فوراً اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی ولی عہد مقرر ہوچکا تھا۔لہٰذا اس نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا ۔لیکن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کی پروا کیے بغیر اس بات کا سرعام اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں ہے ۔ اس لیے اسے خلیفۃ المسلمین نہیںبنایا جاسکتا ۔ یزید کو جب اس بات کا علم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت سے انکار کردیا ہے تو اس نے والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ وہ انہیں میری بیعت پر مجبور کرے اور ان کو اس معاملہ میں مزید کسی قسم کی مہلت نہ دے ۔ ولید کے پاس جب یہ خط پہنچا تو وہ فکر میں پڑگیا کہ اس حکم کی تعمیل وہ کس طرح کرے ؟ چنانچہ اس نے سابق والیٔ مدینہ مروان بن حکم کو مشورے کے لیے بلایا ۔ اس نے کہا کہ اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو فَبِہا ورنہ ان کو یہیں پرقتل کردیا جائے ۔نیز مروان نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ولید سے کہا کہ ابھی امام حسینؓ تمہارے ہاتھ میں ہیں ، اس لیے ان سے درگزر نہ کرو اگر یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر دوبارہ کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے ۔ لیکن ولید ایک عافیت پسند شخص تھا اس نے مروان کی بات کی پروا کیے بغیر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے راستہ کھول دیا اور وہ چل پڑے۔ مروان نے ولید کو ملامت کی کہ تو نے موقع ضائع کردیا ۔ مگرولید نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے سے ڈرتا ہوں ، کہیں ایسا نہ ہوکہ قیامت کے دن وہ اپنے خون کا بدلہ مجھ سے طلب کریں ، اس لیے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون جس کی گردن پر ہوگا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پاسکے گا۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیے اور وہیں جاکر پناہ گزین ہوگئے ۔ یزید کو جب ولید کے عفو و درگزر کا علم ہوا تو اس نے انہیں مدینہ سے معزول کردیا۔
اہل کوفہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ہے تو کچھ حضرات شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر جمع ہوئے اور امام حسینؓ کو خط لکھا کہ ہم بھی یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آپ فوراً کوفہ تشریف لے آئیے تاکہ ہم سب آپ کے ہاتھ ہر بیعت کرلیں اور یزید کی طرف سے مقرر کیے ہوئے کوفہ کے امیر نعمان بن بشیر کو یہاں سے نکال دیں گے ۔ چند دوسرے خطوط بھی آپ کے پاس بھیجے ،جن میں یزید کی شکایات اور اس کے خلاف اپنی نصرت و تعاون اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا یقین دلایا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں چند وفود بھی آپ کی خدمت میں بھیجے ۔ جن سے متاثر ہوکر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی حکمت و دانش مندی سے یہ کام کیا کہ بجائے خود جانے کے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ روانہ کیا اور ان کے ہاتھ یہ خط لکھ کر اہل کوفہ کی طرف بھیجاکہ ’’میں اپنی جگہ اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو بھیج رہا ہوں تاکہ یہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر مجھے ان کی اطلاع دیں۔ اگر حالات درست ہوئے تو میں فوراً کوفہ پہنچ جاؤںگا۔‘‘
مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب چند دن کوفہ میں گزارے تو انہیں اندازہ ہواکہ یہ لوگ واقعتاًیزید کی بیعت سے متنفر اور امام حسینؓ کی بیعت کے لیے بے چین ہیں ، چنانچہ انہوں نے چند دنوں میں ہی اہل کوفہ سے اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی امام حسینؓ کے لیے بیعت کرلی اور حسب ہدایت حضرت حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دے دی۔(الکامل فی التاریخ )
جب لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم کرلیا ہے تو بجز عبد اللہ بن زبیرؓ کے اور کسی نے آپ کو کوفہ جانے کا مشورہ نہیں دیا بلکہ بہت سے حضرات حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ کوفہ ہرگز نہ جائیںاور اہل عراق و اہل کوفہ کے وعدوں اور ان کی بیعتوں پر بھروسہ نہ کریں ، وہاں جانے میں آپ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں