میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کلبھوشن یادیو پر عالمی عدالت کاحکم امتناع حتمی فیصلہ نہیں ہے

کلبھوشن یادیو پر عالمی عدالت کاحکم امتناع حتمی فیصلہ نہیں ہے

ویب ڈیسک
پیر, ۲۲ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ روز یہ واضح کیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے قوم میں کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے، اگر اسے وقت پر نہ پکڑا جاتا تو یہ ملک میں مزید دہشت گردی کر سکتا تھا۔پشاور کے علاقے وارسک میں فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ کلبھوشن یادیو ایک بھارتی جاسوس ہے اور اس کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام نہیں ہے، وہ پاکستان میں دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ کلبھوشن کو پاکستان کے قانون کے مطابق گرفتار کیا گیاہے، سزا سنائی گئی ہے اور اسی قانون کے مطابق اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان عالمی عدالت میں نہیں گیا بلکہ بھارت گیا ہے، تاہم اس کیس پر عالمی عدالت میں پاکستان کا مؤقف واضح ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے اور عالمی قوانین سے واقفیت رکھنے والے عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت پوری مغربی دنیا پھانسی کی سزا کے خلاف ہے اور پھانسی کی سزا ختم کرانے کے لیے یورپی اور دیگر مغربی ممالک میں باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے ،اس تناظر میںکلبھوشن یادیو کو سنائی گئی پھانسی کی سزا کو روکنے کے لیے عالمی عدالت کے جج کی جانب سے حکم امتناع کا اجرا کوئی انوکھی بات نہیں ہے، اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی عدالت نے بھارت کی جانب سے کلبھوشن تک قونصلر رسائی نہ دیے جانے کے اعتراض کو ابھی تک کوئی اہمیت نہیں دی ہے ،اور اپنے حکم امتناع کے عبوری فیصلے میں بھی بھارت کو کلبھوشن تک رسائی دینے کی کوئی بات نہیں کی ، یہی نہیں بلکہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو پرپاکستان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے بھارتی وکیل کے اعتراضات کو بھی ابھی تک کوئی اہمیت نہیں دی ہے ۔اس کے واضح معنی یہ ہیںکہ ابھی بھی گیند پاکستان کے کورٹ سے باہر نہیں گئی ہے، اس مقدمے میں بھارت کو اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے میں جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اس کا اندازہ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے جس میں انہوںنے کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں لے جانے کوبھارتی حکومت کی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جاکر نہ صرف یہ کہ بھارت پاکستان پر کسی طرح کا دباﺅ قائم کرنے میں بری طرح ناکام رہاہے بلکہ اس عمل کے ذریعے بھارت نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر، اور کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو عالمی عدالت میں لے جانے کا موقع دے دیا ہے۔بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق مارکنڈے کاٹجو نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ ’پاکستان بہت خوش ہوگا کہ ہم نے محض ایک شخص کے لیے آئی سی جے کا در کھٹکھٹایا کیوں کہ اب وہ ہر طرح کے مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورم پر اٹھاسکتے ہیں جس پر اب تک ہم اعتراض کرتے رہے ہیں‘۔انہوں نے مزید لکھا کہ ’آئی سی جے میں جاکر ہم نے شاید ایک پنڈورا بکس کھول دیا ہے‘۔مارکنڈے کاٹجو کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی سی جے کے دائرہ اختیار کے حوالے سے پاکستان نے معمولی اعتراض اس لیے کیا کیوں کہ بظاہر وہ سمجھتا ہے کہ بھارت نے ایسا کرکے اسے دیگر تنازعات کو عالمی عدالت میں اٹھانے کا موقع فراہم کردیا۔انہوں نے لکھا کہ ’ہم پاکستان کے آلہ کار بن گئے اور اسے یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ وہاں دیگر تمام معاملات بھی اٹھادے، درحقیقت یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے آئی سی جے کے دائرہ اختیار پر سخت اعتراضات نہیں اٹھائے‘ ۔ ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ اب اگر پاکستان کشمیر کے معاملے پر آئی سی جے میں جاتا ہے تو بھارت بھی عالمی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کرسکے گا۔مارکنڈے کاٹجو کے مطابق ’اب یہ بات طے ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے تصفیے کے لیے آئی سی جے سے رجوع کرے گا اور پھر ہمارے لیے اس کے دائرہ اختیار پر اعتراض کرنا بہت مشکل ہوگا‘۔خیال رہے کہ بھارت نے آئی سی جے میں دائر کردہ اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستانی انتظامیہ بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی فراہم نہیں کررہی جو کہ ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔جبکہ عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف دائر بھارتی درخواست پر پاکستانی وکلا کی ٹیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لیے یہاں کیس نہیں چلایا جاسکتا۔
عالمی عدالت انصاف کے سابق جج جسٹس علی نواز چوہان کا مو¿قف بھی یہی ہے کہ گزشتہ جمعرات کو آنے والا فیصلہ صرف یہ تھا کہ پاکستان میں اس مقدمے کے لیے جو نئے تقاضے مرتب کیے گئے ہیں ان کے مطابق ری ٹرائل کرے۔بی بی سی کے ریڈیو پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے جسٹس علی نواز چوہان نے بھی یہ واضح کیا کہ ’اصل کیس تو ابھی بھی پاکستان کے ہی دائرہ اختیار میں ہے اور پاکستان کو ہی اس کا فیصلہ کرنا ہے۔‘علی نواز چوہان نے کہا کہ ’جہاں تک سزائے موت کا تعلق ہے، اس کا فیصلہ روک دیا گیا ہے اور وہ یہی چاہ رہے ہیں کہ اس کا ری ٹرائل ہو اور کلبھوشن کو پھانسی نہ دی جائے۔ علی نواز چوہان نے یہ واضح کیاہے کہ ’یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ فیصلہ بھارت کے حق میں گیا ہے۔ یہ تو درمیانی فیصلہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اوپر کی عدالتوں میں اپیل کرنے کا موقع ہے اور ان میں بھی یہی اعتراضات اٹھائے جانے تھے کہ قونصلر رسائی نہیں ملی۔ اگر پاکستان یہ مو¿قف لے لیتا کہ ہم کلبھوشن یادیو کو سزا اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک کہ عدالتی کارروائی پوری نہیں ہو جاتی تو شاید عالمی عدالت کی جانب سے حکم امتناع بھی جاری نہ ہوتا لیکن پاکستان نے یہ چیز وہاں نہیں کہی۔انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اگر یہ ثابت کر دے کہ کلبھوشن یادیو گناہ گار ہے تو معاملہ حل ہو جائے گا۔ اب یہ پاکستان کا کام ہے کہ وہ عدالت میں واضح ثبوت لے کر پوری تیاری کے ساتھ جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں