نبطیوں کا شہر
شیئر کریں
دو ہزار سال قبل مسیح یعنی آج سے چار ہزار سال پہلے کا شہر جس کو عرب رقیم کہتے تھے ۔اردن کے جنوب میں واقع نبطیوں کا یہ شہر اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے ایک عظیم شاہکار ہے ۔ نبط والے پتھر تراشنے کے فن میں بڑے ہی ماہر تھے ، اور چٹانیں تراش کے گھر تعمیر کیا کرتے تھے، نبطیوں کے اس فن تعمیر کی ایک وجہ جنگی حالات میں اپنا بہترین دفاع بھی تھا۔اس کے علاوہ انباط یا نبط والے زراعت اور پانی کی ذخیرہ اندوزی میں بھی ماہر تھے ۔پیٹرا کے قرب وجوار سے جو شواہد ملے ہیں اس کے مطابق یہ علاقہ 7000 قبل مسیح سے انسانوں کی آماجگاہ رہ چکا ہے ، عین ممکن ہے کہ نبط والے جب اس علاقے میں آئے ہوں تو پہلے سے موجود جگہوں کو اپنی رہائشگاہ کے طور پہ استعمال کیا ہو،اور اس کو تراش کے اپنے نئے گھر تعمیر کیے ہوں۔نبط نیابوط یا انباط، کے بارے میں روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے نبط یا انباط سے ہیں، جویہاں آکر آباد ہوئے تھے ، اور قت کے ساتھ ساتھ ان کی نسلیں بت پرستی کی طرف مائل ہوتی گئیں اور اپنے حقیقی رب کو بھول بیٹھیں۔روایت ہے کہ لوط علیہ السلام کی قوم پہ جب عذاب نازل ہوا تو لوط علیہ السلام نے اسی شہر یعنی رقیم یا پیٹرا میں آ کے پناہ لی تھی۔ایک روایت میں ہے کہ اصحاب کہف اسی شہر میں آ کے چھپے تھے ،اوران کے غار بھی یہیں موجود ہیں ۔ جب کہف والے جاگے اور تمام واقعے کے بعد جب اللہ نے ان کو ہمیشہ کی نیند دے دی تو اس وقت کے نیک بادشاہ نے ان کی قبریں بنوا کے اس پہ ان کے نام رقم کروا دیے تھے ، اسی وجہ سے اس شہر کو رقیم کہا جانے لگا یعنی رقم کیا گیا یا لکھا گیا۔اور بائبل کے مطابق اس شہر کے بادشاہ کا نام رقیم تھا تب ہی اس شہر کا نام رقیم پڑا۔
یہ شہر پہلی صدی عیسوی میں رومیوں نے فتح کیا اور اس کا نام رقیم سے بدل کر پیٹرا رکھ دیا، اور پھر نبط والوں کا زوال شروع ہو گیا، یہ شہر عرب کا تجارتی مرکز تھا، اور مصر کے تجارتی قافلے جو عرب آتے تھے یہیں سے گزرتے اور قیام کرتے تھے ۔ مگر رومیوں کے بعد یہ شہر پہلے جیسا نہ رہا۔ اور آہستہ آہستہ اپنی مقبولیت کھو بیٹھا پھر نہ تجارت رہی نہ قافلے اور شہر ویران ہو گیا۔مگر اس کی شان و شوکت آج بھی بتاتی ہے کہ نبط والے کس قدر ترقی یافتہ تھے ، اور ساتھ میں یہ بھی کہ ہر عروج کا زوال بھی ہوتا ہے ۔
٭٭٭