میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خوف کی زنجیریں

خوف کی زنجیریں

ویب ڈیسک
هفته, ۲۱ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک

اوراسلامی انقلاب کی پیش قدمی رک گئی۔فرانس کی سرزمین پر10اکتوبر732میں”بلاط الشہدا”کہلانے والی تاریخ سازجنگ لڑی گئی۔طورس اورپواشیرزکے درمیان واقع رومی شاہراہ پرمقابل فوجوں کے درمیان رن پڑا۔یہ جگہ جبلِ طارق سے جہاں طارق بن زیاد30 اپریل711 کواتراتھا،ایک ہزارمیل شمال میں تھی۔ممتازمؤرخین گبن اور لینن پول کاکہناہے کہ اگرمسلمان یہ جنگ جیت جاتے توپیرس اورلندن میں گرجا گھروں کی جگہ مسجدیں نظرآتیں اوروہاں کی عظیم دانش گاہوں میں بائبل کی جگہ قرانِ کریم کی تفسیر پڑھائی جاتی۔ سیدامیرلکھتے ہیں،،طورس کے میدانوں پرعربوں نے اس وقت عالمی سلطنت گنوادی جبکہ یہ ان کی مٹھی میں تھی۔حکم عدولی اورباہمی خلفشارجومسلم معاشرہ کاابدی ناسور اورلعنت رہے ہیں،اس تباہی کاباعث بنے۔
دولت کی ہوس اورباہمی انتشارنے کام دکھایا۔ان کوتاہیوں نے کہاں کہاں ملتِ اسلامیہ کاراستہ نہیں روکا،کیاکیازخم نہیں کھائے ،ہم نے جہاں بھی شکست کھائی مڑکردیکھاتوکمیں گاہ میں کچھ اپنے نظرآئے۔حرص وہ بلاہے جوانہیں سوچنے کی مہلت تک نہیں دیتی کہ بے حدوحساب دولت کس کام آئے گی،خاص طورپروہ جس کے انبارغیرملکی بینکوں میں لگائے گئے،چوری چھپے کے کھاتوں میں دھرے ہیں۔ باہم خلفشاربھی کہاں کم ہوا،کس نے کس کی پیٹھ میں چھرانہیں گھونپا،اپنے پرائے جس کا دالگاوہی موقع پاتے ہی اپنے کرم فرماؤں پر چڑھ دوڑا، اقتدارتودولت سے بھی بری بلاہے۔
جوں جوں طاقت خواہ وہ خلافت کی شکل میں تھی یابادشاہوں کے روپ میں براجمان تھی،کمزورپڑنے لگی،ناچاقی اورانتشار نے سر اٹھایا،ہرطرف یورش بپاہونے لگیں،چھوٹے چھوٹے راجواڑے وجودمیں آتے گئے،وسائل بکھرتے گئے اورمرکزی حکومت کادائرہ اختیار سکڑتاگیا۔آخری عباسی خلیفہ المستعصم ہوں یاآخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر،دونوں ہواکاجھونکاآتے ہی تنکوں کی طرح اڑگئے۔ایک بے بسی کے عالم میں تاتاریوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداگیا،دوسراپابجولاں وطن سے سینکڑوں میل دوررنگون میں حوالہ زنداں ہوا۔ بہادرشاہ ظفرشاعرتھا،شکست اورمحرومی کااظہارکرگیا،اسے دفن کیلئے،،کوئے یار،،میں دوگززمین نہ ملنے کانوحہ کہنے کی مہلت تومل گئی۔ خلیفہ المستعصم توبے چارگی میں بھی دوقدم آگے نکلا۔کہتے ہیں کہ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ جب وہ اپنے آپ کوتاتاریوں کے حوالے کر چکا تو اسے ہلاکوخان کے حضورپیش کیاگیا۔ہلاکونے سونے کی کچھ ڈلیاں اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،،اسے کھاؤ،۔۔مجبورقیدی نے پریشان ہوتے ہوئے عرض کیا”سوناکھایا نہیں جاتا”جواب ملاتو”پھرڈھیروں جمع کیوں کررکھاتھا،اگرہمیں بھجوادیاہوتاتوآج عیش و آرام سے جی رہے ہوتے،ایسانہیں کرناتھاتواپنے دفاع کیلئے خرچ کیاہوتا”۔
مال ودولت کی ہوس نے کیاکیاگل نہیں کھلائے،حرص کی نہ کوئی سیماہے نہ حد……….یہ وہ شعلہ ہے جولپکتاہی جاتاہے۔انسان مجموعہ اضدادہے۔مرغوب چیزوں پرفریفتہ ہونا جہاں ایک فطری امرہے وہیں جودوسخاکا بیج بھی اس کے من کوقدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ کون کس ڈگرپرچلے،فیصلہ اس کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ارشادربانی ہے: لوگوں کومرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیاہواہے جیسے عورتیں اوربیٹے اورسونے اورچاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اورنشان کیے ہوئے گھوڑے اورمویشی اورکھیتی یہ دنیاکی زندگی کا فائدہ ہے اوراللہ ہی کے پاس اچھاٹھکانہ ہے۔(آل عمران۔14)اصل دولت تواللہ کی رضااور”رضوان”ہے،جس خوش نصیب کویہ خزانہ مل گیااس کے دونوں جہان سنورگئے،جو اس سے محروم رہا،وہ بازی ہارگیا۔پردہ اٹھنے کی دیرہے جب اسی سونے چاندی سے جس کے انبارلگاتے نہیں تھکتے،ان کی پیشانیاں داغی جائیں گی،پھریادآئے گاکہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیناہی بہترتھا۔ہوسکتاہے کوئی ہلاکوخان اسی دارِفانی میں اس”سونے کوتناول فرمانے”کی فرمائش کرے۔
چھوٹے اوربڑے انسان میں غالبافرق ہی اتناہے کہ چھوٹاآدمی”حب الشہوات”میں گرفتارہے اوربڑاانسان کسی اعلی مقاصدکے حصول میں کوشاں۔پہلاجاہ ومال پرجان ودل سے فداہے،دنیابھرکی دولت سمیٹناچاہتاہے،بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچناچاہتا ہے،پہنچ پائے تواس کے چھن جانے کے خیال سے ہی ہلکان رہتاہے۔وہ اسے دوام دینا چاہتا ہے،اس کیلئے سب کچھ روارکھتا ہے۔ قانون، اخلاق،مذہب،انسانیت جوبھی راہ میں حائل ہو،اسے کچل دیاجائے،ہرحربہ روارکھاجائے تاکہ اس کااقتدارطول پکڑتا جائے اور مال و اسباب میں اضافہ ہوتارہے۔بدقسمتی سے دورِحاضرمیں اقتداراوردولت لازم وملزوم ٹھہرے ہیں۔
اہل سیاست میں اکثراسے ناقابلِ تردیدحقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کہ قارون کاخزانہ پاس نہ ہوتواقتدارتک رسائی ناممکن ہے۔یہ مفروضہ نہایت خطرناک کھیل کوجنم دیتاہے۔ایک نہ ختم ہونے والی بے رحم دوڑشروع ہوجاتی ہے جس میں حصولِ مقصد کیلئے سب کچھ روا رکھا جاتا ہے۔بدعنوانی،رشوت،چوربازاری،راہزنی اوراس قبیل کی ساری بلائیں سیلاب کی صورت امڈآتی ہیں۔ملک کیامعاشرہ بھی غیرمستحکم ہوجاتاہے۔اضطراب کے عالم میں لوگ ادھرادھربھاگنے لگتے ہیں۔ناجائزکمائی کوچھپانے کیلئے کونے کھدرے تلاش کرناپڑتے ہیں۔
مالِ حرام جہاں سے کمایا،وہاں وہ خودکومحفوظ محسوس نہیں کرتا۔اس کی اڑان لازم ہے،موسمی پرندوں کی طرح یہ خوشگوار ماحول کی تلاش میں محفوظ مقامات پرچلاجاتاہے۔اس کے ”مالکوں”پرچھائیاں پڑنے لگیں تووہ بھی بدیش سدھارجاتے ہیں۔وطن ِ عزیزغریب سے غریب تر ہوتاجاتاہے،ایک طرح لٹیروں کادیس بن جاتاہے جن میں کئی ایک شب بھر میں ارب پتی بنناچاہتے ہیں ،جس کابھی بس چلے وہ اندھیرے اجالے میں چوکتانہیں۔اقتدارمیں آنے والوں میں سے کچھ توایسے ہوتے ہیں جواس کارِخیر میں ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں ہوتے ہیں۔نجی محفلوں میں کھلے بندوں تذکرہ ہوتاہے کہ فلاں بازی لے گیااورفلاں پیچھے رہ گیا۔وزارتوں اورقلمدانوں کی قیمت لگتی ہے،نیازمندوں کودودھ دینے والی گائیں عطاہوتی ہیں اوروہ جنہیں”شاہ جہانِ وقت”کوشیشے میں اتارنے کافن نہیں آتا،وہ عنائتِ خسروانہ سے محروم رہتے ہیں۔حالات کی مجبوری کے پیشِ نظراگرانہیں کچھ دینابھی پڑے توکوئی بے فیض ساعہدہ جس کے ہونے اورنہ ہونے سے کوئی چنداں فرق نہیں پڑتا،ان کامقدربنتاہے۔
سیاست ایک بہتادریاہے جس کاپانی کبھی اتناشفاف تھا کہ کناروں پرکھڑے اشجارجھک جھک کراس میں اپناعکس دیکھتے تھے۔صاف
ستھرے،وضعدارلوگ جنہیں اپنی عزت کا پاس تھا،ملک وقوم کی خدمت کیلئے اس میدان میں اترتے تھے۔شرافت، متانت،عوام کی خیرخواہی اورکارِثواب کی تمناان کیلئے زادِراہ ہوتے تھے۔اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے ۔دولت مندنہ ہوں تو دل کے غنی ہوتے تھے۔ان کی غیرت گوراہ نہیں کرتی تھی کہ خدمتِ خلق کے عوض کوئی معاوضہ یامالی فائدہ حاصل کریں۔ بڑے غیوراورپاک طینت لوگ تھے ۔اللہ رحمت کرے ان عظیم ہستیوں پرجوآزادی کی نعمت سے قوم کوہمکنارکرگئے۔حرص و ہوس کی زنجیریں اگروہ نہ توڑچکے ہوتے تومنزل تک پہنچنے سے بہت پہلے بک گئے ہوتے۔ خریداروں کی نہ آج کمی ہے نہ اس وقت تھی،مال بکاہوتوگاہک بہت،ڈرانے والے اس دورمیں بھی بہت تھے۔امریکی سلطنت توابھی زچگی کے عالم میں ہے پھربھی ایک دنیاڈری سہمی سجدے میں پڑی ہے۔قائداعظم اوران کے ساتھیوں کوتوبرطانوی سامراج کاسامناتھاجس کی سلطنت میں واقعی کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔وہ لاکھ مہذب حکمران سہی مگر قید خانے ان کے بھی تھے۔آزادی کے متوالے سیاستدانوں سے حاکم لوگ پیارومحبت کی پینگیں نہیں بڑھاتے تھے۔پاکستان کامطالبہ کرنے والے توبہتوں کے پہلومیں کانٹے کی طرح چبھتے تھے۔اگرہمارے محسن ڈر گئے ہوتے یاخدانخواستہ بک گئے ہوتے توپاکستان نہ بن پاتا۔پاک سرزمین کی حفاظت وہی جذبہ مانگتی ہے۔یہ دھرتی شاداورآباد اسی صورت میں رہ سکتی ہے جب ہر سطح پراس کی قیاد ت حرص و ہوااورخوف کی زنجیریں یوں توڑدے کہ ان کے ٹوٹنے کی چھنک دنیاکے کونے کونے میں سنائی دے۔اللہ کرے ہم ایسا کر پائیں!سن لیں کہ میرارب کس طرح رہنمائی فرمارہاہے:مسلمانو !اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔(النسائ:58)
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ (العنکبوت:64)
رہے نام میرے رب کاجودلوں کے حال جانتاہے!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں