پولیس مقابلے کا تشویشناک پہلو
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
ضلع گجرات کے گائوں ہنج میں رواںہفتے تین روزپولیس مقابلہ ہوتا رہا جس میں ایک پولیس اہلکارطارق عزیز سمیت چار دیگر اشخاص مارے گئے اب جمعرات صبح سے پولیس لائن میں جشن کا سماں ہے رنگ بھرنے کے لیے پولیس اہلکار وں کوپابند کیا گیا ہے کہ خیر مقدمی نعرے لگائیں اور آفیسروں پرپھولوں کی پتیاں برسا کر استقبال کریں پولیس کے ضلعی سربراہ سے قریبی تعلق رکھنے والوں کو سول سوسائٹی کا لقب دیکرایک عدد انجمن ستائشِ باہمی تشکیل دی گئی ہے سوشل میڈیاپر متحرک کچھ لوگوں سے بھی داد وتحسین کی پوسٹیں لگوائی جارہی ہیں ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ پولیس مقابلے کے دوران ضلعی پولیس آفیسر کی سربراہی میں ماتحت اپنی جان پر کھیلے ہیں مگر شواہدسے جرات و بہادری کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا البتہ ناقص حکمتِ عملی اور اناڑی پن واضح ہوتا ہے دکھ تو یہ ہے کہ ایک معصوم پولیس اہلکار ناتجربے کاری اور بزدلی کی بھینٹ چڑھ گیا جس کے لواحقین محرومی کے دکھ کے ساتھ زندگی بسر کریں گے کیونکہ ظاہر ی حالات کو برداشت کرنے پر مجبورکردیے گئے ہیں۔
ہنج گائوں کا شمار تحصیل کھاریاں کے خوشحال دیہات میں ہوتاہیں جہاں خوشحالی ہو وہاں ناجائز آمدن کے بھی مواقع ہوتے ہیں ماضی میں یہاں منشیات کا دھندہ بھی ہوتا رہا ہے ممکن ہے اب بھی ایسا ہورہا ہو لیکن سچ یہ ہے کہ پولیس مقابلے کی وجہ منشیات نہیں بلکہ دودھڑوں کی دشمنی بنی ہے زبان و زدِ عام ہے کہ ایک فریق نے پولیس کو اعتماد میں لیکر فائرنگ شروع کی تاکہ مداخلت کا موقعہ دیکر حریف کوپولیس کے زریعے رسواکرایا جا سکے جس کی تائید گائوں میں فائرنگ ہوتے ہی ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کا آدھمکنا اور گھرکی دیوار پھیلانگ کر داخل ہوناہے ممکنہ طورپر اِس کی وجہ ضلعی پولیس آفیسر مستنصر عطا باجوہ کی فیلڈ میں پہلی تعیناتی ہوناہے قبل ازیں وہ صرف دفاتر میں کام کرتے رہے اگر فیلڈ کا تجربہ ہوتا تو پورے گائوں کی ناکہ بندی کرنے ،باربار بجلی بندکرانے اور گھروں کی چھتوں پر بے مقصدہوائی فائرنگ کرانے کی بجائے حکمت وتدبر سے کوئی ایساحل تلاش کرتے جس سے ماتحت کا جانی نقصان نہ ہوتا اور فائرنگ میں ملوث شخص گرفتار کرلیاجاتامگر عدم منصوبہ بندی ،ناقص حکمتِ عملی اور بزدلی نے پانچ انسانی جانوں کو شکار کر لیا ،مزید حماقت کا پہلو یہ ہے کہ غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اپنی نااہلی،ناتجربے کاری اور بزدلی کو پولیس مقابلے کا پیراہن پہناکر ایک معصوم پولیس ملازم کا خون چھپایا جارہاہے اگر اہلیت و صلاحیت ہوتی تو گائوں کی چار دن تک ناکہ بندی کرنے اور ہزاروں کی پولیس نفری طلب کرنے کے باوجودقاتل کو ہینڈ گرنیڈ سے مارنے کی نوبت نہ آتی جبکہ کانسٹیبل کے قاتل فیصل کا بھائی مظہر پہلوان پہلے ہی پولیس کی حراست میں تھا پھر بھی گفتگو کامنطقی انجام تک نہ پہنچناناتجربہ کاری کے سواکچھ اور نہیں ہو سکتا۔
قبل ازیں کسی پولیس ملازم کو نشانہ بنایا جاتا توشہیدکے جنازے سے قبل ہی قاتلوں کوکیفرِ کردار تک پہنچاکر ڈی پی او اپنے ماتحت اہلکارکی نمازِ جنازہ میں شامل ہوتے مگر ہنج واقعہ میں ایسا کچھ نہیں ہوابلکہ نصف شب سے قبل جب فائرنگ شروع ہوتی ہے توپولیس فوری طورپر بغیرکسی تیاری آدھمکتی ہے حالانکہ دوگروپوں میں فائرنگ ہو تو پولیس سربراہ لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی ضرورلیتاہے لیکن یہاں پولیس ملازم مرنے کی خبرجب زرائع ابلاغ پرگردش کرنے لگی اور سوشل میڈیا پرڈی پی اوکی عدم موجودگی بارے قیاس آرائیاں ہونے لگیں توحماقت تسلیم کرنے کی بجائے پولیس ملازم کوشہید کہہ کر کریڈٹ لیناشروع کردیا گیاجس میں اِس حد تک کامیابی ہوئی کہ آرپی او طیب چیمہ نے بھی پولیس ملازم کے جنازے کو کندھادیا مگر بات پھر وہی ہے کہ اگر پولیس کاضلعی سربراہ تجربہ کار،اہل وباصلاحیت ہوتا توٹھوس و نتیجہ خیز حکمتِ عملی سے کام لیتا یہاں تویہ عالم تھاکہ مقابلے کے نام پر حماقتوں کے پہاڑ بنائے جاتے رہے ۔
فیصل عرف فیجی کی ہلاکت کے کئی پہلووضاحت طلب ہیں اول یہ جو اب کہا جارہا ہے کہ وہ بدنامِ زمانہ منشیات فروش تھا توسوال یہ ہے کہ پولیس کوپہلے کیوں علم نہ ہو سکا نیز مقتول ملزم کے پاس بھاری اسلحے سے پولیس کیا یکسر بے خبر تھی؟صاف بات یہ ہے پولیس کوسب معلوم تھاکسی کے تعاون سے ہی ملزم نے قلعہ نما گھر بنایا گجرات میں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب فائرنگ نہ ہوتی ہوبلکہ شب کی تاریکی گہری بھی نہیں ہوتی کہ شہراوردیہات فائرنگ سے گونجنے لگتے ہیں لیکن ضلعی پولیس آفیسر کے اطوار یہ ہیں کہ زیادہ وقت گھر یادفتر بندرہتے ہیں سائلین سے بے رُخی معمول ہے ڈی پی او کے دفتر میں سائلین وشرفا سے آئے روز تلخ کلامی ہوتی ہے کرخت مزاجی نے اُنھیں عام لوگوں سے دورکردیا ہے وہ کئی ماتحتوں پربدتمیزی کاالزام لگا کر عہدوں سے ہٹا چکے ہیں مگر خود اخلاق وتمیز جیسی روایات کی پاسداری نہیں کرتے مزیدیہ کہ کسی سائل کی موجودگی میں اگر انصاف دینے کاتھانے فون کر دیں تو سائل کے دفتر سے نکلتے ہی دوسرا فون یہ کرتے ہیں کہ اپنی مرضی کرنا میری کوئی سفارش نہیں ابھی حال ہی میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد کا کام کوٹیشن پر کرانے کاکارنامہ سرانجام دے چکی ہیں اِس بے ضابطگی کی آڈٹ پہرے میں نشاندہی ہوچکی یہ خبر قومی اورمقامی اخبارات میں بھی شائع ہو ئی ہے شاید اِس حرکت کی وجہ یہ ہو کہ ڈی پی او نے رواں برس چھبیس اکتوبرکوہی اپنی لختِ جگر کورُخصت کیا ہے اِس باوجودڈی پی او جیسے منصب پر فائز شخص جب یہ کہے کہ مجھ سے پہلے تعینات رہنے والے ڈی پی اوز شادیوں میں شریک ہونے کے پیسے لیتے تھے بہت غلط ہے ایک طرف تو اپنی ایمانداری اور دیانتداری کے قصیدے سنائے جاتے ہیں مگر ایک ایسے نفسیاتی مریض انسپکٹر عمران سوہی کو بے تحاشا اختیارات سونپ رکھے ہیں کہ ایس ایچ او لگانے اور بدلنے پرقادر ہے عمران سوہی کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ خود اگر ایس ایچ او لگ جائے تو لوگوں کے گھروں میں فون کرکے تھانہ اخراجات کے نام پر عطیات اکٹھے کرتا ہے ۔
چلیں خیرفیصل عرف فیجی پر تو ایک پولیس ملازم کومارنے اور ایک کو زخمی کرنے کا الزام تھا اور یہ کہ کسی کو کوئی حق نہیں کہ کسی کی ناحق جان لے اور پولیس والا تو ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے اِس لیے ہینڈ گرنیڈ سے ہی سہی مارناسمجھ میں آتا ہے لیکن ساتھ مزید تین افراد کو ماردینا سمجھ سے بالاتر ہے جنھیں بظاہر کہانی جانداربنانے کے لیے مقابلے میں پار کردیاگیالیکن کوئی بھی سنائی جانے والی کہانی پر یقین کرنے کوتیارنہیں سبھی پولیس مقابلے کو حماقت کہہ رہے ہیںمزیددلچسپ پہلویہ ہے کہ چاروں ملزموں پر منشیات فروشی کا الزام لگا کرہینڈ گرنیڈ سے ماراگیا
لیکن گائوں کی چھتوں پر کئی گھنٹے پولیس کے شیر جوان بے مقصد ہوائی فائرنگ کے زریعے خوف وہراس پھیلاتے رہے اِس بارے ایک سے زائد ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں پولیس مقابلے کے نام پر گجرات میں جو حماقت کی گئی ہے سچ پوچھیں تواِس کاتشویشناک پہلویہ ہے کہ مورال خاک بلند ہونا ہے اِس واقعہ سے پولیس کی خامیاں اُجاگر ہوئی ہیں جس کے ذمہ دارکوئی اورنہیںپولیس کے ضلعی سربراہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔