میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہندو معاشرے میں خواتین کی حالت زار

ہندو معاشرے میں خواتین کی حالت زار

منتظم
جمعرات, ۲۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

شہزاد احمد
میں لڑکیوں اور خواتین کو جنسی حملوں کا نشانہ بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قائم جرائم کے اعدادوشمار کے قومی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016ء میں جنسی زیادتی کے 1996 مقدمات درج کرائے گئے۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کی تعداد 1893 کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت نے شہروں کو محفوظ بنانے کی غرض سے خفیہ نگرانی کے کیمرے نصب کیے اور فوری مدد کے لیے ہیلپ لائن کے مراکز قائم کیے تاہم سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے اور خواتین ، لڑکیوں اور حتیٰ کہ بچیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔
بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنادی۔ انتہاپسندوں نے مسلم خواتین کو بھی نہ بخشا۔ بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے ریلوے ا سٹیشن پرگائے کا گوشت لے جانے کے شبے میں2 مسلمان خواتین کو لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔غیرملکی میڈیا کے مطابق مدھیہ پردیش میں گائے کا گوشت لے جانے پر دو مسلم خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ جس سے وہ زخمی ہو گئیں۔اس واقعہ میں بھارتی عوام کی مسلمانوں کے خلاف بے حسی یوں بھی نمایاں ہوگئی کہ ریلوے سٹیشن پر موجود لوگ ویڈیو بناتے رہے اور کسی نے خواتین پر تشدد سے جنونیوں کو نہیں روکاجبکہ اس موقع پر ا سٹیشن پر بھارتی پولیس موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی۔خواتین آدھا گھنٹہ تک زمین پر پڑی رہیں جس کے بعد پولیس انہیں ساتھ لے گئی۔ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ خواتین پر گائے کا گوشت اسمگل کرنے کا الزام لگا کر تفتیش شروع کر دی۔
ضلعی پولیس سربراہ نے بتایا کہ ہم نے خفیہ اطلاع پر ان خواتین کی گرفتاری کے لیے سٹیشن پر پولیس تعینات کر رکھی تھی لیکن ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔ پولیس کے مطابق دونوں خواتین یہ گوشت فروخت کرنے کے لیے لے جارہی تھیں۔اس حوالے سے ایک ویڈیو فوٹیج بھی بھارتی ٹی وی چینلوں سے دکھا ئی گئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقامی ڈاکٹروں نے گوشت کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ گائے کا نہیں بلکہ بھینس کا گوشت ہے۔پولیس نے دونوں خواتین کو جوڈیشل تحویل میں لے لیاہے۔
ایک مشہور ہندی کہاوت ہے کہ لڑکی کی پیدائش لکشمی (دولت) کی آمد ہوتی ہے۔ تاہم بھارتی معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہوتا ہے، وہ اس مفروضے کی نفی ہے۔ لکشمی دیوی کو دولت کی دیوی مانا جاتا ہے۔ ثروت مندی اور خوش بختی کی علامت لکشمی دیوی کا بْت اِنہی خصوصیات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارتی معاشرے میں عورت کو عزت و افتخار کا باعث سمجھا جاتا، ایک ایسے معاشرے میں جوعالمی سطح پر اثر و رسوخ اور خوشحالی میں آگے سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے معاشرے میں، جہاں اس دیوی کو اتنا بلند مقام حاصل ہے، وہاں حقیقی معنوں میں خواتین کی صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ بھارت میں عورتوں کو امتیازی سلوک اور گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے قتل کا رواج بھی عام ہے۔ اس بارے میں تھومسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ایک نئے سروے کے مطابق دنیا میں چوٹی کی 19 بڑی معیشتوں کے مقابلے میں بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔
اس سروے میں دنیا کے 370 صنفی ماہرین کی رائے شامل کی گئی۔ ان سب نے متفقہ طور پر کہا کہ دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں G20 میں شامل ملک کینیڈا خواتین کے مقام کے حوالے سے سب سے اوپر ہے۔ تاہم اس میں یورپی یونین کے ممالک کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور امتیازی سلوک کے حوالے سے بدترین ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر بھارت ہے۔
بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے کوائف اکھٹا کرنے اور انہیں ویب سائٹ پر شائع کرنے والے شمیر پدن یارے دل کہتے ہیں، ’بھارت میں عورت کا زندہ بچ جانا ایک معجزے سے کم نہیں۔ لڑکی کی زندگی کو ماں کے پیٹ میں ہی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی خواہش رکھنے والوں کو، جس وقت پتا چلتا ہے کہ لڑکی جنم لینے والی ہے، اْسی وقت اْسے اسقاط حمل کے ذریعے قتل کروا دیا جاتا ہے۔شمیر پدن یارے دل کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو بہت چھوٹی عمر ہی سے امتیازی سلوک، جنسی زیادتی اور کم عمری میں جبری شادی جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد عورتوں کو جہیز کی خاطر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر وہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود بچ جائے اور اْسے بیوگی کی زندگی گزارنا پڑے، تو اْسے نہ صرف امتیازی سلوک کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ اْسے تمام تر حقوق، خاص طور پر وراثت اور جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق امتیازی سلوک کا شکار سب سے زیادہ شمالی بھارت کی خواتین کو بنایا جاتا ہے، جہاں اکثریت کے اذہان پر اب بھی گھسے پٹے خیالات کا غلبہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں حقیر اور کم تر درجے کی حامل ہے۔ خواتین کو اکیسویں صدی میں بھی گھر اور بچوں کی دیکھ بھال تک محدود رکھا جاتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 2برسوں میں 25000خواتین ہلاک ہوئیں۔یہ اعداد و شمار کانگرس کی لیڈر مانیکا گاندھی نے لوک سبھا میں پیش کیے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پورے بھارت میں جہیز ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی تعداد تیس ہزار سے زاہد ہے۔ یاد رہے کہ حکومتِ ھند نے 1961ء سے ملک بھر میں جہیز ایکٹ کا نفاذ کر رکھا ہے جس کے تحت کسی بھی خاتون کو جہیز کی وجہ سے ہراساں کرنے پر مقدمہ درج کر ایا جاسکتا ہے۔ جہیز کمی وجہ سے عورت پر تشدد کی خصوصی سزا بھی دی جاتی ہے۔ حکومت ہر سال اس مسئلے پر لوگوں کو معلومات مہیا کرنے اور جہیز کی لعنت کو ختم کرنے پر بھر پور مہم چلاتی ہے اور کثیر سرمایہ خرچ کرتی ہے۔ لیکن یہ لعنت کسی طرح بھی قابو نہیں آرہی۔ بھارت میں اس کی وجہ وہاں کی معاشرتی روایت ہے۔ بھارت میں عورت کوجائیداد میں حصہ دینے کی کوئی روایت نہیں ، اس وجہ سے والدین شادی کے موقع پر ہی جہیز کی شکل میں کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں اورسسرال والے اس کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ وہ خواتین جو شادی پر غربت کی وجہ سے جہیز نہیں لاتیں یا کم لاتی ہیں انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہیز نہ لانے والی خواتین کو سسرال میں قتل بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے زندہ جلانا ، حادثے پیدا کرنا، عورت کے ماں باپ کو بلیک میل کرنا ایک عام سی بات ہے۔
دنیا کے کسی بھی خطے میں اس طرح کے جرائم کی کوئی تاریخ نہیں۔ خواتین کا اتنی بڑی تعدا دمیں ہلاک ہونا ایک ریکارڈ ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اس حوالے یہ بھی جاننا چاہیے کہ اسی جہیز کی وجہ سے بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عورتوں کی تعدادمردوں سے کم ہے۔ الٹراساؤنڈ کی سہولت کی وجہ سے ’’بچی‘‘ کی پیدائش روک دی جاتی ہے اورمائیں اسقاطِ حمل کرا لیتی ہیں۔ اگرچہ اس لعنت پر حکومت نے بہت پیسہ خرچ کیا ہے اور قانون سازی بھی کی ہے لیکن یہ قانون کسی بھی طرح معاشرے کو سدھارنے کا باعث نہیں بن رہا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے معاشرہ صرف قانون نافذ کرنے سے نہیں ، قانون کو ثقافت اور تمدن کا حصہ بنانے سے بدلتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں