فلسطین اسرائیل تنازع اور سعودی امن فارمولا
شیئر کریں
عمران احمد سلفی
مغربی ممالک کی سازشوں اور امت مسلمہ کی زبو حالی انتشار و افتراق اور نیشنلزم کی تحریک کے نتیجے میں اسلام کے قلب پر اسرائیل کا خنجر گڑے ہوئے آج نصف صدی بیت چکی ہے اور روز اول سے اسرائیلیوں کی کوشش رہی ہے کہ خوف لالچ دھونس دھاندلی اور مغربی ممالک کی زیر سرپرستی طاقت کے بے دریغ استعمال کے ہتکھڈوں کے ذریعے زمینوں سے بے دخل کر کے یہودیوں کو جو پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں یکجا کر کے فلسطین میں آباد کیا جائے ۔ اس عمل میں اسرائیل کو اپنے مربی و آقا امریکا ،برطانیہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی مکمل تائید حاصل رہتی ہے اگرچہ یہ مغربی ممالک دنیا بھر میں اپنی جمہوریت ، انسانیت اور اعلیٰ اقدار کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے۔ انہیں انڈونیشیا کے مشرقی تیمیور میں تو ظلم جلدی نظر آ جاتا ہے لیکن فلسطین و برما وکشمیر میں بہتا ہوا انسانی لہو دہشت گردی نظر نہیںآتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ جو کہ ظلم و انصافی کے خلاف مظلوموں کی داد رسی کا بین الاقوامی چارٹر اپنے سر پر سجائے پھرتا ہے وہ بھی وہیں کارروائی کرتا ہے جہاں امریکا، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک چاہتے ہیں۔ خون مسلم کی ارزانی اقوام متحدہ کی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی کیونکہ آخر کار یہ لوگ مسلمان ہیں اور غلیلوں سے اسرائیلی فوجیوں پر پتھرائو کر کے دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں لہذا یہ کسی طور بھی انصاف کے لائق نہیں البتہ اسرائیل اگر ٹینکوں اور F-16 سے فلسطینی بستیاں تاراج کرے اور عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنائے تو عین جائز ہے کیونکہ یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نہیں آتا ۔ یہی صورتحال کشمیر ۔شیشان اور فلپائن و برما میں بھی درپیش ہے۔ چونکہ وہ سب بھی مسلمان ہیںاور عالم اسلام بے حسی و بے حمیتی کا شکار ہے۔فلسطین میں جاری تشدد میں گُزشتہ چند برسوں بالخصوص تحریک انتفاذہ کے وجود میں آنے کے بعد بہت اضافہ ہو گیا۔
جب یاسر عرفات کے ذریعہ امریکا نے امن مذ اکرات کے نام پر اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کو یکجا بٹھانے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ مزاکرات محض اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ہوس ملک گیری کے لیے جاری متشددانہ پالیسیوں کی وجہ سے بار آور نہ ہو سکے تھے۔بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے امریکا بش انتظامیہ نے بھی 11 ستمبر کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی جسکی وجہ سے آج فلسطین کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر FOCUS ہوگیا ہے اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا منظقی نتیجہ ہے کہ فلسطینیوں میں ایک نیا جذبہ آزادی خودکش حملوں کی صورت میں پروان چڑھ رہا ہے چونکہ فلسطینی عوام و حکومت اسرائیل کے مقابل کسی قسم کی فوجی طاقت نہیں رکھتے لہذٰا عوام میں یہ شعور پروان چرھ رہا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کر کے اگر اسرائیلیوں کو جانی و مالی تباہی سے دوچار کردیا جائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اسلیے آجکل فلسطین اگر اسرائیلی فوجی حملوں کی زد میں ہے تو اسرائیل بھی جانثار فلسطینیوں کے ہاتھوں زبردست تباہی و بربادی کا شکار ہو رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشت و خون کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔ عالمی ضمیر کب بیدار ہوگا؟ آیا امت مسلمہ کے وجود میں زندگی کی رمق بھی باقی ہے یا نہیں؟ OIC کا کرادار کیا ہے؟وہ اپنی ذمہ داریوں سے کس طرح عہدا بر آ ہو رہی ہے؟ ایسے ماحول میں جبکہ عالم اسلام بحیثت مجموعی بے حسی اور خوف و دبائو کا شکار ہے کہ مبادا امریکا بہادر کہیں کسی ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ چڑھ نہ دوڑے اور واحد سپر پاور ہونے کے دعویٰ کے ساتھ اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج نہ کردے۔آخر کار امریکا نے اپنی وفاداری کا حق ادا کیا ۔اس فکر کے علی الرغم سعودی سابق فرمارواں ولی عہدعبداللہ بن عبدالعزیزؒ نے فلسطین بلکہ عرب اسرائیل تنازعہ کے مستقل دیر پا پر امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت امن فارمولا پیش کیا تھا۔ اس پر عمل ہوجاتا تو آج یہ صورتحال پیدا ہی نہیں ہوتی۔
فلسطین اور دیگر عرب ممالک نے اس امن فارمولے کو سراہتے ہوئے قابل قبول قرار دیاتھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اسرائیل اس فارمولے سے اتفاق کرتا جبکہ اسکا نظریہ و فلسفہ اور عزائم پوری سرزمین عرب پر قبضہ کرنے کے ہیں جو کہ اس کی پارلیمنٹ کی عمارت پر کنندہ تحریر کے ذریعہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ سعودی عرب کی تجویز کے مطابق اگر اسرائیل 1967ء کی جنگ اور مابعد قبضہ کیے گئے علاقے خالی کردے اور جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک بھی خیر سگالی کے طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور باہمی امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں میں حصہ لیں گے۔اس طرح اگرچہ بحیثیت امت مسلمہ اسرائیل کے ناجائز و ناپاک وجود کو سند قبولیت حاصل ہو جائے گی اور فلسطین جو کہ پورے کا پورا مسلمانوں کا ہے اور یہودیوں کو امریکا ،روس اور دیگر ممالک سے لاکر ناپاک یہودی تسلط ہر گز پسندیدہ نہیں ہو سکتا لیکن ان سب کے باوجود سعودی امن فارمولا فلسطین اسرائیل تنازعہ کی گھٹا توپ اندھیروں میں ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا تھا بشرطیکہ اسرائیل بھی اس منصوبہ کو سند قبولیت عطا کرتا اور صدق دل سے امن کا خواہاں ہوتا اگرچہ اب تک اسرائیل کا جو کردار ہمارے سامنے ہے اسکے مطابق تو اسکی طرف سے کسی مثبت پیش رفت کا اظہار ممکن نہیں ہے ۔ البتہ اگر امریکا، برطانیہ، فرانس، روس و دیگر مغربی ممالک اس پر دبائو ڈالیے تو شاید ایسا ممکن ہوتااور فلسطینی جو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیئے گئے ہیں انہیں کسی حد ریلیف مل سکتا ہے اور آئے دن کی دہشت و بر بریت اور قتل و غارت گری کا سدباب ہو سکتا تھا۔ چونکہ اسرائیل کا وزیر اعظم ایریل شیرون فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بربریت کا ذمہ دار رہا ہے اور اسکے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے ہی اسرائیلی فوجی تشدد و بربریت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا تھا۔وہ وحشی درندا مسلمانوں کے خون کا پیا سہ رہا اور کسی طور اپنی حقیقی دہشت گردی سے بعض آنے والا نہیں مگر پھر بھی اس امید پر سعودی امن فارمولے کی دنیا بھر میں تائید و ستائش کی تھی کہ اس طرح نصف صدی سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار دونوں متحارب گروپوں کو امن و سلامتی سے رہنے کا موقع فراہو سکتا تھا۔بادی النظر میں یہ فارمولا بہت پر کشش تھا مگر اسرائیلی ہٹ دھرمی کا ریکارڈ ماننے والوں کے لیے یہ بات قرین قیاس محسوس ہوتی ہے کہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی کیونکہ اسرائیل اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرے گا اور اگر بادل نخواستہ اس پر صاد کر بھی دے تو جس طرح یاسر عرفات کے ساتھ امریکی نگرانی میں مزاکرات کا حشر کیا وہی سلوک اس منصوبے کے ساتھ کر سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا ۔ بہرحال امید پر دنیا قائم ہے ۔
اگر امریکا بہادر چاہتا تو یہ مسئلہ مشرقی تیمور کی طرح حل ہو سکتا تھا ۔ وگرنہ اسلام و اہل اسلام کے خلاف یہودو ہنود اورنصاریٰ کا اتحاد ایسا ممکن نہیں ہونے س اور امت مسلمہ کو جر م ضعیفی کر سزا مرگ مفاجات کی صورت میں مزید بھگتتے رہنے کے لیے تیار رہنا پڑے تا وقتیکہ کوئی صلاح الدین ایوبی دوبارہ زندہ ہو اور بیت المقدس کو یہودیوں کے پنجہ ء استبدار سے آزاد کرائے ۔ عالم اسلام کا اتحا د و اتفاق جرآت و بے باکی کفار سے مرعوبیت کا خاتمہ سیاسی معاشی اقتصادی سائنسی تعلیمی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ایک بار عہد اسلام کی نشاط ثانیہ کا سبب بن سکتے ہیں اور مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار و عظمت رفیقی حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ قرآن و سنت سے خالص وابستگی اور دیگر تمام نظریات باطل سے مکمل علیحدگی اختیار کرلیں۔ تمام اسلامی سربراہان ذمہ داری محسوس کریں کہ وہ عالمی ضمیر بیدار کر نے کے لیے فعالیت کا مظاہرہ کریں اور OIC کے نے جان وجود میں نئی روح پھونکیں تاکہ وہ اسلامی مفادات کے تحفظ کا فریضہ صحیح معنوں میں ادا کر سکیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدص سے متعلق حالیہ اعلان عالم اسلام کے قلب پر خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔ پوری دنیا میں بیت المقدص کو اسرائیل کا دارلحکوموت تسلیم کرنے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے امریکی صدر کا یہ زہریلا اعلان اسلام اور مسلم دشمنی کا کھلااظہار ہے جس کے خلاف عالم اسلام کے حکمرانوں کو متحد ہو کر سخت لاے علم اختیار کرنا ہوگا ۔