بریک تھروکا امکان
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
پیروکے شہر لیما میں ہونے والے ای پیک کے 31ویں اقتصادی سربراہ اجلاس کی بات کی جائے تو سب سے اہم واقعہ دنیا کی دوبڑی حریف طاقتوں کے سربراہوں کا مل بیٹھنا اور اعتماد سازی کی بات کرنا ہے۔ چینی اور امریکی صدورکے درمیان ہونے والی ملاقات بظاہر خوشگوارماحول میں ہوئی چین کے صدرشی جن پنگ اور امریکی صدرجوبائیڈن ایک برس قبل سان فرانسسکومیں بھی ملے تھے اور مختلف شعبوں میںتعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے چند رہنما اصول بنائے جن میں فوج،انسدادِ منشیات،قانون نافذ کرنے والے اِداروں ، مصنوعی ذہانت ،موسمیاتی تبدیلی ور عوامی آمدورفت کو فروغ دیناتھا ۔یہ اصول طے کرتے وقت دونوں نے دنیا کویہ باورکرانے کی کوشش کی کہ سرد جنگ کی طرف لے جانے والی کشیدگی اور محاذ آرائی میں کمی لانے کے لیے ایسا لائحہ عمل بنا یاہے جس سے دوریوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی مگرسفارتی حلقے اور عالمی امورپر دسترس رکھنے والے تجزیہ کارمتفق تھے کہ جیسا خیال ظاہر کیا جارہا ہے ایسا ہونابعیدازقیاس ہے اور وقت کے ساتھ دوریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تعلقات بہتر بنانے کے امکانات کا جائزہ لینے اور لچھے دار گفتگوکے باوجود وقت نے ثابت کردیاکہ ملاقات کے دوران طے پانے والے رہنما اصولوں سے ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اب بھی واقفانِ کاکہنا ہے کہ ایک برس بعد دونوں صدور میں ہونے والی موجودہ ملاقات اور ایک دوسرے کے بارے میں نیک خواہشات کے اظہار سے مستقبل میں بھی بریک تھرو کا امکان نہ ہونے کے برابرہے۔
چین اِس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور امریکہ سب سے بڑی دفاعی قوت،دونوں کو ایک سے زائد چیلنج درپیش ہیں ۔امریکہ دنیاپراپناغلبہ برقرار رکھنے سمیت اپنی معیشت کوزوال سے بچانے کی تگ ودومیں ہے جبکہ چین کے لیے معاشی ترقی کی رفتار بحال رکھنا اور ایک چین کی پالیسی اہم ہے تائیوان کوالگ ملک تسلیم کرنے کی بجائے چین اُسے اپنا حصہ کہتا ہے لیکن چینی موقف سے امریکہ کو اختلاف ہے اور وہ تائیوان کو ایک الگ اور خودمختار ملک جیسی عالمی حیثیت دلانے کے لیے کوشاں ہے ۔اِس کے لیے نہ صرف گزشتہ چند برس سے امریکی حکام نے تائیوان سے میل ملاقاتیں بڑھادی ہیں بلکہ اُسے اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنے کے قابل بنانے کے لیے جدید ترین سلحے اورلڑاکا طیاروں کی فراہمی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے اور بھارت کو چین سے بھڑجانے کی تھپکی دینا شروع کررکھی ہے جس پر امریکہ اور چین کے تعلقات غیر ہموارہوچکے ہیں ۔چین جس نے ہمیشہ فوجی کی بجائے معاشی طاقت بننے کو ترجیح دی ہے نے امریکی پالیسی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے خطے میں متخرک ہونے کے ساتھ ہم خیال عالمی صف بندی شروع کردی جس سے نئی سرد جنگ کا امکان قوی ترہوگیا ۔اسی بناپرجب بھی چینی اور امریکی صدورکی ملاقات ہوتی ہے تو دنیا اصل اندرکی خبر جاننے کی جستجومیں لگ جاتی ہے۔ اب بھی لیما ملاقات میں دونوں معاشی اور فوجی قوتوں کے درمیان کیا طے پایا ہے؟یہ جاننے کے لیے سبھی بے چین ہیں۔
کوئی جو بھی کہے اِس میں شائبہ نہیں کہ اب بھی امریکہ ایک ناقابلِ تسخیر ایسی فوجی طاقت ہے جو زوال پزیر معیشت کے باوجودعالمی معاملات کواپنی پسند کے مطابق حل کرنے پرقادر ہے ۔غزہ ،بیروت پرجاری حملوں نیز روس ویوکرین جنگ ختم نہ ہونے میں امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے بڑی یہ فوجی طاقت چینی معیشت سے سخت خوفزدہ ہے اور اُس کی ترقی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش میں ہے لیکن باوجود کوشش کے اُسے کسی نوعیت کی کامیابی نہیں مل رہی تنگ آکر تائیوان کی سرپرستی شروع کردی تاکہ چین معیشت سے زیادہ دفاعی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مگر تائیوان کواپنا حصہ قراردینے اور امریکی کردار پر تحفظات کے باوجود چین کی اب بھی معیشت ہی اولین ترجیح ہے۔ اتوار کے روز چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران جو بائیڈن کا بیجنگ سے تصادم نہ کرنے کی بات دراصل اعترافِ شکست ہے۔ چین نے بھڑکانے کی تمام تر کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کوکبھی ثانوی درجہ نہیں دیایہاں تک کہ اپنے مال کی بڑی منڈی ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت سے سرحدی معاملات حل کرنے جیسا کڑواگھونٹ تک پی لیا۔ مبادا برآمدات پربُرے اثرات مرتب ہوں اب بھی صدرشی جن پنگ کی امریکی ہم منصب سے ملاقات کو معیشت کے تناظر میں دیکھنا زیادہ بہتر ہوگا جس کی تائیدملاقات اور بعد ازملاقات اُن کے خیالات سے بھی ہوتی ہے۔
صدرشی ملاقات کے بعد گزرے چار برس کے دوران اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز کا تذکرہ کرنا نہ بھولے لیکن یہ بھی تسلیم کیا کہ نتیجہ خیز مذاکرت سے تعاون کے کچھ مقاصد حاصل ہوئے ہیں ۔سفارتکاری،سلامتی،معیشت وتجارت، مالیات، فوج،انسدادِ منشیات،زراعت،آب و ہواکی تبدیلی اور عوامی تعلقات کے بیس سے زائد شعبوں میں رابطہ نظام یا تو بحال یا ازسرِ نو قائم کیاگیا جسے مجموعی طورپر استحکام کی طرف پیش رفت کہاجا سکتاہے۔ مگرمثبت نتائج کے ذکر کے ساتھ یہ بھی یاد دہانی کرادی کہ درست اسٹریٹجک تفہیم یہ ہے کہ نئی سرد جنگ لڑنااب ناممکن ہے اورچینی ترقی روکنے کی کوششوں کو غیر دانشمندانہ اور ناپسندیدہ قراردیتے ہوئے ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ جو کہاجائے اُس پر قائم بھی رہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوگی اور باہمی اعتماد کو نقصان ہوگا۔ برابری کے برتائوکا مطالبہ کرتے ہوئے دوٹوک اندازمیں واضح کردیاکہ امورِ تائیوان ،جمہوریت ،انسانی حقوق،قومی نظام اور ترقی کا حق چین کی سرخ لکیریں ہیں جنھیں کوئی کراس کرے اِس کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مزید بات چیت اورتعاون پر آمادگی کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچائے ۔البتہ شورش زدہ دنیا میں یقین اور مثبت توانائی پیداکرنے کی بات بھی کردی۔
اب جبکہ جو بائیڈن کے رخصت ہونے میں محض دو ماہ رہ گئے ہیں اور نئے منتخب صدر ٹرمپ بیس جنوری سے اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کاآغازکرنے والے ہیں ان حالات میں اِس ملاقات سے کسی بریک تھرو کابھلے امکان نہیں کیونکہ نومنتخب صدر ٹرمپ چینی اشیا پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے لیے پُرعزم ہیں تاکہ چینی برآمدات کو محدود کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں لیکن یہ تصورکرلینا کہ ملاقات بالکل ہی بے نتیجہ ثابت ہو گی بھی غلط ہوگا ۔ سچ یہ ہے کہ لیما ملاقات سے دونوںطاقتوں کی ترجیحات اور کمزوریاں اُجاگر ہوئی ہیں۔ چین کے لیے آج بھی اپنی معاشی ترقی سب سے زیادہ اہم ہے ۔اسی لیے حتی الامکان امریکی فوجی قوت سے براہ راست ٹکرائو سے گریزاں ہے۔ علاوہ ازیں امریکی حکام کو بھی کامل ادراک ہے کہ جب چینی معیشت کوڈی ریل کرنا اُس کے بس میں ہی نہیں تو کیوں نہ ایسے شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے جس سے اُس کی ناہموارہوتی معیشت کوفروغ ملے ۔ اِس تناظرمیں بھلے لیما ملاقات کسی بریک تھروکی بنیاد نہ بنے البتہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ مسئلہ تائیوان پرامریکی حکام لچک کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ بشرطیکہ چین عالمی صف بندی میں امریکہ مخالف ممالک کو منظم کرنے کی کوششیں روک دے ۔