مودی سرکار کے اوچھے ہتھکنڈے جاری
شیئر کریں
مرالہ راوی بنک کنال اور لوئر چناب کنال کاپانی بند، کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا
محمد اویس غوری
گزشتہ ہفتہ پنجاب کے لیے بہت ہنگامہ خیز رہا۔سرحدوں پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ جہاں معصوموں کا خون بہاتی رہی وہیں پر سرحدی کشیدگی میں اضافہ اپنی آخری حدوں پر رہا ¾ بھارتی ڈرون مار گرایا گیا جبکہ بھارتی آبدوز کو بھگا دیا گیا لیکن مودی اپنی کمزور حکومتی پالیسیوں سے نظر ہٹانے کے لیے صرف اور صرف پاکستان کی طرف سے حملے کے خطرے کو ہی کیش کراتے نظر آئے۔آسمان پر تقریباً 70سال بعد سپر مون کے نمودار ہونے پر ہمارے ٹی وی چینلز کی پیالیوں میں جو طوفان اٹھا وہ دوست ملک ترکی کے صدر طیب اردوان کے دورہ لاہور یا ایک اور چاند بلاول بھٹو زردار ی کی لاہور آمد کی صورت میں قائم ہی رہا۔ سپریم کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قطری شہزادے کاخط پیش کیا گیاجس پر امیر جماعت اسلامی بھرپور طنز کرتے نظر آئے کہ حکمران خاندان کو تو عرب حکمراں فیکٹریاں اور فلیٹ تحفے میں دیتے ہیں جبکہ سراج الحق کو صرف کھجوروں اور آب زم زم پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی میں بڑی سیاسی تبدیلیوں نے بلاول بھٹو کی سیاسی اٹھان اور بالغ نظری کا ثبوت دیا تو دوسری طرف اپنی ہی سیاسی جماعت کی طرف سے مسلسل نظر انداز کئے جانے کے بعد ممتاز سیاسی رہنما اور جیالے جہانگیر بدر بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
مودی سرکار نے اس موقع پر اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کی بجائے پھر وہی دہائیوں پرانا حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے اور مزید دلدل میں دھنس گئی۔ گزشتہ پورا ہفتہ پاک بھارت زمینی ¾ آبی سرحدوں پر کشیدگی اپنے عروج پر رہی لیکن بھارت کو اس بار بھی منہ کی کھانا پڑی۔ بھمبر سیکٹر پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے 7پاکستانی جوان شہید ہو گئے لیکن جوابی فائرنگ میں 13سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔زمینی سرحد پر پسپائی کے بعد بھارت کی آبدوز پاکستانی پانیوں میں داخل ہوئی جس کو پاک بحریہ نے ڈھونڈ نکالا اور اس کو بھگا دیا گیا ۔ پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ مہارت نے بھارت کا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔دوبارہ ہفتے کے روز بھارت کی طرف سے کھوئی رٹہ سب سیکٹر میں بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 4پاکستانی بچے شہید ہو گئے جبکہ بھارت کا ایک ڈرون مار گرایا گیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مطابق 45بھارتی فوجی گزشتہ دنوں میںجہنم واصل کئے جاچکے ہیں ۔بھارت کی طرف سے اوچھے ہتھکنڈے یہیں پر ختم نہیں ہوئے بلکہ سی پیک سے خوفزدہ مودی سرکار نے مرالہ راوی بنک کنال اور لوئر چناب کنال کو پانی کی فراہمی بند کر دی ہے ¾ اس بندش کی وجہ سے پاکستانی کاشتکاروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ گندم کی بوائی میں تاخیر کی وجہ سے فصلوں کو نقصان ہو گا ۔ ایک طرف جہاں پاک آرمی بھارت کو منہ توڑ جواب دینے میں مصروف رہی ¾ وہیں پر پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے رسمی بیانات کے علاوہ بھارت کو کوئی سخت پیغام نہیں دیاگیا حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ بھارت کو اس موقع پر ہر سطح پر منہ توڑ جواب دیا جاتا اور اس کا چہرہ عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاتا۔
ایک طرف بھارت سی پیک پر بلبلا رہا ہے وہیں ترک صدر طیب اردوان نے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر لاہور آکر کشمیر کے موقف میں پاکستان کی تائید کرتے ہوئے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔ لاہور میں ترک صدر کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ”پاکستان البم“ پیش کیا۔ اس موقع پر ترک صدر نے شہباز شریف کو اپنا بھائی قرار دیا اور کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ لاہور میں شہباز شریف کو ملے بغیر واپس چلے جاتے۔اس موقع پر شہباز شریف نے پاکستان اور ترکی کے درمیان ہیلتھ کیئر کے منصوبوں کا آغاز کیا اور کہاکہ وہ ترکی کی مدد سے پاکستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو مثالی بنائیں گے۔ لاہور شاہی قلعہ میں ترک صدر کے اعزاز میں تقریب ہوئی اور اسی دوران پاک ترک معاہدے پر ترکی سفیر مصطفی بابر گرکن اور پاکستان کی طرف سے سیکرٹری صحت پنجاب نجم شاہ نے دستخط کئے۔ترک صدر کی لاہور آمد کے موقع پر جہاں حکومت پنجاب بہت پرجوش تھی وہیں پر لاہور میں ہزاروں لوگ بھی گھنٹوں تک ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر پھنسے رہے ۔ اس موقع پر بدانتظامی اپنے عروج پر رہی اور عوام یہ سوال کرتے پائے گئے کہ پاک ترک تعلقات اپنی جگہ ¾ ترکی کے صدر کی آمد بھی سر آنکھوں پر لیکن اس کے لیے عوام کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی؟
وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے بیانات سے تو لگ رہا ہے کہ اب انہوں نے ہیلتھ کیئر کے سسٹم کو بہتر بنانے کی طرف اپنی توجہ مبذول کر لی ہے گزشتہ کئی ہفتے تک لاہور کے ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز نے جو طوفان بدتمیزی اٹھائے رکھا ہے اس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ نے پنجاب میں صحت کے شعبے میں چند اقدامات کئے ہیں جن کے مطابق 103بنیادی مراکز کی پنجاب بھر میں اپ گریڈیشن کی جائیگی ¾ 1200نرسوں کی اضافی بھرتیاں کی جائیں گی ¾ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے دیہی علاقوں میں ایک سال تک خدمات کی فراہمی لازمی ہو گی ¾ جبکہ اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹس بھی دئیے جائیں گے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ان اقدامات کے نتیجے میں امید تو ہے کہ مریضوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کم ہوں گی اور یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹروںکی بدمعاشی بھی اب کچھ کم ہو گی ۔
پیپلز پارٹی نے لگتا ہے کہ اب سیاسی جمود توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ آصف علی زرداری ایک عرصے کے بعد میڈیا پر نمودار ہوئے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری نے سیاست میں اہم فیصلے کئے ہیںجس کا آغاز انہوں نے پنجاب سے کیا ہے ۔ بلاول بھٹو نے قمر زمان کائرہ کو وسطی پنجاب کا صدر جبکہ ندیم افضل چن کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا ہے ۔ سیاسی حلقوں نے بلاول بھٹو کے اس فیصلے کو ان کی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ ذرائع نے نمائندہ جرا ت کو بتایا کہ بلاول بھٹو اب سیاسی سرگرمیوں میں فعال ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے ایک بڑا دھماکا کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس دھماکے کے لیے انہوں نے لاہور کا انتخاب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے ہدایت کی ہے کہ 30نومبر کو لاہور میں پارٹی کے یوم تاسیس کے حوالے سے جن 5روزہ تقریبات کا اعلان کیا گیا ہے ان میں پاکستان بھر سے پیپلز پارٹی کی نمائندگی اور زیادہ سے زیادہ تعداد کو یقینی بنایا جائے تاکہ بلاول بھٹو زرداری اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں لیکن بلاول بھٹو زرداری نے ابھی تک پیپلز پارٹی کے ان مسترد شدہ یا ناراض اراکین کو منانے کی کوشش نہیں کی جو کہ پارٹی کا اثاثہ ہیں اور جنہوں نے پارٹی کے لیے اپنی پوری زندگی کام کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وفات پانے والے سنیئر رہنما جہانگیر بدر اس بات کا ثبوت ہیں جن کو کافی عرصہ سے پارٹی نے نظر انداز کر رکھا تھا اور بعض حلقے تو جہانگیر بدر کی وفات کا ذمہ دار اسی نظر انداز کئے جانے کو کہتے ہیں۔ اس سے قبل امین فہیم جیسے سیاسی رہنما بھی پارٹی کی طرف سے نظر انداز کئے جا چکے تھے۔