میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گورنر اور پکوڑے

گورنر اور پکوڑے

جرات ڈیسک
پیر, ۲۱ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

کوئی دن جاتا ہے کہ گورنر سندھ تبدیل کردیا جائے گا۔ مگر اس فیصلے سے وابستہ ذہن اور ذہنیت ہمیشہ موضوع بحث رہے گی، جیسا کہ یہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا کہ کبھی عدالتِ عظمیٰ پر ایک لشکر چڑھ دوڑا تھا۔ کبھی عدلیہ تقسیم کردی گئی تھی اور انصاف سیاسی مقاصد کے لیے جنسِ بازار بن گیا تھا۔ ماضی مٹتا ہی نہیں۔ہمیشہ یاد رہنے والے داغستان کے نامور ادیب رسول حمزہ توف نے کہا تھا کہ ”اگر تم ماضی کو پستول کا نشانا بناو¿ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانا بنائے گا۔“
جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی جب سندھ کے گورنر بنائے گئے تو ایسا نہیں تھا کہ اُن کی عمر اور صحت کا ارباب اقتدار کو اندازا نہ ہو، مگر بات ہی دوسری تھی۔ ذرا اس بات کو کچھ وقت کے لیے نظر انداز کیجیے۔عدالت عظمیٰ کے عزت ماب منصف نے فرمایا کہ اخبار کو چھوڑیئے اگلے دن اس میں پکوڑے فروخت ہورہے ہوتے ہیں۔ برادرم ارشاد عارف نے اس کا بُرا منایا اور مثالوں سے ثابت کیا کہ اخبار عدالتوں میں ہمیشہ قابلِ لحاظ اور نظیروں میں شامل رہے۔ سچ کہا مگر ایک سچ اور بھی ہے۔ اخبارات کی حرمت کی اب کسے پروا ہے؟ وہ حرف جو حرمت آشنا تھے، کہیں حرفِ غلط کی طرح مٹ مٹا گئے۔ اب اخبارات نہیں کچھ اور چھپتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اخبارات کے مالکان اور مدیران بُرا مناتے۔ مگر موٹے پیٹوں کے لشکر کو یہ بات گراں ہی نہ گزری۔ پھر عزت ماب منصف نے درست ہی فرمایا ہوگا۔ گالی کھانے والا آدمی ہی گالی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ اخبار کی پوری برادری نے بات گوارا کر لی۔ بابائے صحافت ضمیر نیازی اب اپنی قبر میں آسودہ سوتے ہیں، کبھی اُن کی زندگی رہنمائی کی دھوپ دیتی تھی۔ اب کہاں ، اب کہاں!!!!اُن کی کتابیں گاہے صحافت کے طالب علموں کو جذبات سے دہکادیتی ہیں۔ کیا تاریخ ایسے بھی تحریک دیتی ہے؟برصغیر کی صحافت اپنی تاریخ میں ایسی کبھی نہ تھی، اس کاآغاز ہی ولولہ انگیز تھا۔ ضمیر نیازی نے لکھا ہے کہ اس خطے میں صحافت اور اس کے مصائب نے ایک ساتھ جنم لیا۔ یہاں تو اخبار جاری کرنے کا پہلا خیال ہی قید خانے کے اندر پیدا ہواتھا۔ اب اخبار کے ڈیکلریشن سلاخوں کے پیچھے ریاستی طاقت کے ذریعے اپنے دستر خوانی قبیلے کے سرخیلوں کو چھین کر مرحمت کرائے جاتے ہیں۔ وقت بدلا تو محترم منصف کے الفاظ بھی بدل گئے۔ یہ انصاف کی تاریخ نہیں ، تاریخ سے انصاف بھی ہے۔ مگر پورا نہیں۔
کبھی یہاں مولانا ظفر علی خان ہوتے تھے، اب اُن کے تاجر ہیں۔ مگر سرکار کی خدمت میں ایک اور راز بھی آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔ صحافت نے ہی نہیں انصاف نے بھی زوال کا منہ دیکھا ہے۔ عدالت کے ایسے کون سے فیصلے ہیں جو کاغذ پر چھپ کر زرق برق لباس پہن سکے۔ چاندنی کے ورقوں میں لپٹ سکے۔آبرو کی خلعت فاخرہ پہن سکے۔ گستاخی معاف اس پر کوئی منطقی مکالمہ (Reasoned Discourse) کہاں موجود ہے؟سقراط کی لاش عدالت کے کندھے پر آج بھی دھری ہے۔ ابھی وہ فیصلہ آئے چند روز ہی تو ہوئے جس میں دو بے گناہ بھائیوں کی بے گناہی کا اعلان کیا گیا توعدالت کو معلوم تک نہ تھا کہ وہ اس فیصلے سے بے نیاززنداں سے قبرستان پہنچ گئے ۔ معلوم نہیں یہ فیصلے کن کاغذوں پر لکھے جاتے ہیں؟ مگر مولانا ابوالکلام آزاد کے یہ الفاظ حرمت آشنا کاغذ پر جگمگاتے ہیں کہ ”دنیا میں سب سے زیادہ ناانصافیاں محاذِ جنگ کے بعد عدالتی محاذ پر ہوئیں۔“
سال 1997ءکا یہی ماہ نومبر تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے اخبار سے بھی کم قیمت کاغذوں پر لکھے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ میں کورٹ روم نمبر ایک کی تختی دو کمروں کے دروازوں پر آویزاں تھیں۔ اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے کے احکام کالعدم کرنے کے فیصلے سنائے جارہے تھے ۔ ایک کمرے کے اہلکار دوسرے کمرے کے خلاف عدالتی احکامات کے کاغذ لے کر دوڑتے پھرتے تھے۔ یہ فیصلے معلوم نہیں کن کاغذوں پر چھپے ہیں؟تب عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم سجادعلی شاہ نے وطن واپسی پر قائم مقام چیف جسٹس کے مخالف فیصلوں پر یہ ریمارکس دیئے تھے کہ ”قائم مقام چیف جسٹس کی ایکٹنگ ختم ہوگئی۔“یہ عدالتی بحران کا نقطہ عروج نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا نقطہ کھولاو¿ بھی تھا۔ درست بات تو یہ ہے کہ تب وہ اخبارات جس پر اگلے دن پکوڑے فروخت ہوتے ہیں مکمل عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کے حامی تھے۔شاید کچھ لوگوں نے اُن ہی اخبارات پر پکوڑے کھائے ہوں! ادارے نہیں افراد کی وفادار یہ صحافت بھی چمک کی شکار ہے۔مگر معزز عدلیہ کے تو کیا ہی کہنے!!اب وہ گورنر سندھ ہوتے ہیں ، جناب جسٹس سعید الزماں صدیقی صاحب، تب وہ خود بھی اپنے ادارے کے نہیں بلکہ انتظامیہ کے وفادار تھے۔ وہ عدلیہ میں منصفوں کے ایک گروہ کی دوسرے کے خلاف سرپرستی فرما رہے تھے۔ وہ معزز منصفین جو تب اپنے ہی چیف جسٹس کو چارج شیٹ کررہے تھے، اُن میں جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی بھی شامل تھے۔ اُن کی وفاداری ہمیشہ نون کے حلقوں میں قا بل قدر رہی۔اور دسترخوانی قبیلے نے اُنہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مگر تکریم کا مستقل فیصلہ تاریخ کے دوام میں ہوتا ہے، موٹے پیٹوں کے لشکروں کی لمبی زبانوں پر نہیں۔ ایک حتمی فیصلہ بآلاخر صادر ہوکر رہے گا۔آخر ایک ایسے شخص پر گورنر کے لیے نگاہ انتخاب کیوں ٹہری جو پیمپر پہن کر گورنر ہاو¿س پہنچا اور اپنے قارورہ کو سنبھال نہیں پاتا۔وہ وقت بھی زیر بحث رہے گا جب عدالت عظمیٰ میں ایک اہم مقدمے کے ہنگام جسٹس سعید الزماں صدیقی گورنر بنائے گئے۔ کیا اس کا کوئی پیغام تھا۔بدعنوانوں کی دولت تو سات پردوں اور سات سمندر پار چھپ جاتی ہے۔مگر تاریخ کے دامن میں اخفا کے پردے نہیں ہوتے۔ وہ سب کچھ بے نقاب کردیتی ہے۔ کوئی دن جائے گا جب گورنر سندھ تبدیل کردیئے جائیں گے۔ مگر یہ بات بھی کسی دن طشت ازبام ہو جائے گی کہ وہ کیونکر گورنر بنائے گئے؟اور خاطر جمع رکھیں یہ بات بھی اخبار میں ہی چھپے گی۔یاد رہے صرف پکوڑے ہی اخبار میں نہیں ملتے ، کبھی کبھی اخبار کی خبر بھی ایسی ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے پکوڑوں سے زیادہ پُرلطف ثابت ہوتی ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں