میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مریم صفدر کی جانب سے عدلیہ اور احتساب بیورکے افسران کودھمکیاں

مریم صفدر کی جانب سے عدلیہ اور احتساب بیورکے افسران کودھمکیاں

منتظم
هفته, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر پر فردِ جرم عائد کردی۔ریفرنس پر سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، جہاں فرد جرم عائد ہونے پر کمرہ عدالت میں موجود مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا گیا۔دوسری جانب نواز شریف (جو اِن دنوں لندن میں موجود ہیں) کے وکیل ظافر خان نے اپنے موکل کا بیان پڑھ کر سنایا اور صحت جرم سے انکار کیا۔اپنے بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘شفاف ٹرائل میرا حق ہے اور آئین میرے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے لیکن مانیٹرنگ جج کو خاص طور پر اس کیس میں تعینات کیا گیا’۔بعد ازاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف عزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی گئی۔احتساب عدالت میں آج سماعت کے آغاز پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز کی جانب سے عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی جِلد نمبر 10 موجود نہ ہونے کی وجہ سے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے عدالتی کارروائی کو روک دیا جائے۔جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ فردِ جرم عائد ہونے کے سلسلے میں جے آئی ٹی رپورٹ کی ضرورت نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت کے دوران بھی فردِ جرم عائد کی جانی تھی لیکن عدالت میں بد نظمی کی وجہ سے اسے ملتوی کردیا گیا تاہم ضروری ہے کہ آج ملزمان پر فردِ جرم عائد کی جائے۔دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے بھی ایک درخواست جمع کرائی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف نے نیب ریفرنسز کے خلاف سریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس کا فیصلہ آنے تک احتساب عدالت کی کارروائی کو مؤخر کیا جائے تاہم احتساب عدالت نے اس درخواست کو بھی مسترد کردیا۔ان دونوں درخواستوں کے خارج ہونے کے بعد شریف خاندان کی جانب سے ایک اور درخواست دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا نیب کی جانب سے دائر تینوں ریفرنسز کو یکجا کرکے کارروائی کا ا?غاز کیا جائے کیونکہ ان تینوں ریفرنسز میں الزامات، نیب کے قانون کی دفعات اور گواہان بھی ایک ہی ہیں، تاہم عدالت نے اس درخواست کو بھی مسترد کردیا۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نوازنے نواز فیملی کے خلاف ریفرنس تیا ر کرنے والے افسران اوراحتساب عدالت کے جج حضرات کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ احتساب کو انتقام بنانے والوں کابھی ایک دن احتساب ہوگا۔
قومی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل کرکے بھاری اثاثے بنانے کے الزام میں آج احتساب عدالت میں ملزمان کے کٹہرے میں کھڑے نظر آنے والے نواز شریف فیملی خود کو قائد اعظم کاجانشیں اور مسلم لیگ کو اپنی آبائی جماعت قرار دیتی ہے ۔’’مسلم لیگ‘‘ پاکستان کے بانیوں کی پارٹی تھی، لیکن پاکستان کی آزادی کے بعد یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی، کبھی یہ بالکل خاموش ہوجاتی تو کبھی فاطمہ جناح جیسی شخصیات اسکی روح ورواں ہوتیں،مگر 1970تک یہ پارٹی ایک ’’چھوٹی‘‘ پارٹی بن چکی تھی اس لیے 1972 اور 1976 کے انتخابات میں اس پارٹی کو شکست فاش ہوئی۔ 1976 میں یہ ایک اتحاد کاحصہ بن گئی جو صرف پی پی پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اتحاد نے 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کیخلاف احتجاج شروع کر دیا۔ احتجاج پر تشدد ہوتا گیا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔1985 میں صدر بن کر مارشل لا ہٹانے کے بعد ضیا نے عام انتخابات کرائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ پی ایم ایل فنکشنل کے لیڈر محمد خان جونیجو نے پی ایم ایل فنکشنل کو ایک متحدہ ’’پاکستان مسلم لیگ‘‘ میں بدل دیااورایک بار پھر یہ اکثریتی پارٹی بن گئی اور جونیجو کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ اس پارٹی کا منشور ضیا سے نجات اور اکانومی کی بہتری تھا۔ یہ پارٹی ملک میں اسلام کا نفاذ اور افغان جنگ سے نجات چاہتی تھی۔
عین اس وقت جب محمد خان جونیجو آمریت سے نجات کے لیے کوششیں کر رہے تھے، جنرل محمد ضیاالحق میاں نواز شریف کی سیاسی تربیت کررہے تھے۔ ضیا دور میں وہ لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ وہ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981میں پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیرِخزانہ شامل ہو گئے۔ میاں نواز شریف 1985 کی پی ایم ایل کے ممبر بن چکے تھے، آمریت کے زیرِ سایہ 1985میں ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 9 اپریل ،1985 کو انھوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ 31 مئی 1988کو جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں نواز شریف چونکہ ضیا الحق کے ’’لخت جگر‘‘ بن چکے تھے اس لیے انہیں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جنرل ضیا نوازشریف کو اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دیا کرتے تھے۔ اور شریف النفس محمد خان جونیجو اپنی عزت بچانے کی خاطر کئی باتوں پر خاموشی پر ہی اکتفا کرتے، نواز شریف نے اس کی پروا کیے بغیر کہ جونیجو اور پارٹی کے دوسرے افراد اْن کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اپنی ’’ترقی‘‘ کا سفر جاری رکھا اور 1988 میںمبینہ طورپر دھاندلی کے ذریعے نواز شریف دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنگئے۔ یہ پارٹی 1988 میںدائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بن گئی تھی۔ انتخاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کو فتححاصل ہوئی تھی لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق نے پی پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں کرپشن کے الزام میں وزارت عظمی سے علیحدہ کر دیا گیاجس کے بعد آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ نواز شریف نے ایک بار پھر محمد خان جونیجو کے حق پر ڈاکہ ڈالا اور خود وزیر اعظم بن گئے۔جبکہ پارٹی کا ایک گروپ جونیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا۔ یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیااور 1993 میں محمد خاں جونیجو کی وفات کے بعد حامد ناصر چٹھہ نے ’’مسلم لیگ جونیجو ‘‘قائم کرلی۔ اور بچی کھچی پارٹی کو ’’پی ایم ایل این‘‘ کا نام دیا گیا۔یعنی میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن پر پہلا ڈاکہ خود ڈالا۔ اس حکومت پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
1997 میں پی ایم ایل نون ایک بار پھر حکمران پارٹی بن گئی۔مگر 12اکتوبر1999کو پرویز مشرف کی جانب سے حکومت پر قبضے اور نواز شریف کی اٹک میں نظر بندی کے بعد نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کو میدان میں آنا پڑا۔ میاں صاحب کو ’’قدم بڑھائو‘‘ والے مشورے دینے والے مشکل کی اس گھڑی میں نواز شریف کے کوئی کام نہ آئے۔ بالآخر امریکی صدر کلنٹن اور سعودی قیادت سے ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاکر نواز شریفنے اپنی جلاوطنی کا بندوبستکیا اورراتوں رات ایک خفیہ معاہدے کے تحت وہ اپنے رفقا کوچھوڑ کر۔ کئی برس جلاوطن رہنے کے باوجود نواز شریف نیمحلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ اورمبینہ طورپر چمک کے ذریعے خود کو ملکی سیاست میں ایک اہم کردار بنائے رکھا۔ان کی محنت کا صلہ بالآخر 2008 میں دیکھنے کو ملا۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی ’’بادشاہی‘‘ ان کے چھوٹے بھائی کو نصیب ہوئی۔ وہ اگرچہ خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں اور 2008 سے آج تک پنجاب کو ’’گڈگورننس‘‘ کی علامت کے طورپر پیش کرتے رہے ہیں۔ 2013میں انتخابات ہوئے تو نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے اوراس کے بعد سے ’’تاریخ‘‘ بنتی ہی چلی جارہی ہے۔ 2014کا دھرنا اپریل 2016کا پانامہ، اسی برس نومبر میں اسلام آباد کا لاک ڈائون اور پھر ایک وزیر اعظم کی گریڈ 19سے 21تک کے افسروں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے مجرموں کی طرح پیشی۔ ان سب کی بدولت بالآخر نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں براہِ راست نا اہلی کی تاریخ بھی بن گئی اس سے نواز شریف اس قدر ۔
نواز شریف میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص ان کے خاندان کے ناجائز مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتااس لیے انہوں نے 28 جولائی 2017کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں نااہل ہونے کے بعد کئی بے ڈھنگے فیصلے کیے جس سے پارٹی کاز کو نقصان پہنچا۔گزشتہ روز احتساب عدالت سے فرد جرم عاید ہونے کے بعد مریم نواز نے کسی شرمساری کااظہار کرنے کے بجائے ایک دفعہ پھر یہ تاثر دے کر عوام کے جذبا ت سے کھیلنے کی کوشش کی ہے کہ عدالتوں میں جو کچھ ہورہاہے وہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ناانصافی ہے ،گویا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ان کے والد اس ملک کے تمام تر وسائل کے بلاشرکت غیر مالک تھے اور اگر انھوں نے قومی خزانے کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اپنے بیٹوں کے اکائونٹ میں منتقل کیا اور بیٹوں کورہنے کے لیے قیمتی فلیٹ لے کردئے تو یہ ان کاحق تھا اس پر جواب طلبی کاکسی کوحق نہیں پہنچتا۔مریم نواز اور نواز فیملی کی یہی وہ سوچ ہے جس نے نہ صرف شریف فیملی بلکہ اس ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیاہے، موجودہ صورت حال میں دانش مندی کاتقاضہ یہی ہے کہ مریم نواز صبر سے کام لیں اور جو کچھ ان کی فیملی کے ساتھ ہورہاہے اسے مکافات عمل تصور کرکے کھلے دل سے قبول کریں اور ان کے والد محترم اور فیملی کے دیگر ارکان نے عوام کے اعتماد کو جو دھوکہ دیا ہے اور قومی خزانے کو جس بیدردی سے لوٹا ہے اس کااعتراف کرتے ہوئے قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت اور اس دولت سے کمائی گئی دولت قومی خزانے میں واپس جمع کرائیںعوام سے معافی طلب کریں اور اپنے سابقہ جرائم پر شرمساری کااظہار کرکے دوبارہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں ،عدالتوں اور ریفرنس تیار کرنے والے افسران کو دھمکیوں کے ذریعے اب غالباً وہ خود کو احتساب اور سزا سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکیںگے۔
امید کی جاتی ہے کہ نواز شریف خود موجودہ صورت حال سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس مرحلے پر عدالتوں اورتفتیشی اداروںکومتنازعہ بناکر ان کی ساکھ کونقصان پہنچانے کی کوششیں ترک کرکے زمینی حقائق کاسامنا کرنے کی کوشش کریں ، صرف یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ان کو سزا ہوجانے کی صورت میں بھی ان کی پارٹی قائم رہ سکتی ہے اور کم از کم پاکستان میں پھیلے ہوئے ان کے کاروبار کاپہیہ چلتارہ سکتاہے۔ بصورت دیگر تاریخ بنانے کی کوشش کرتے کرتے وہ خود تاریخ کاحصہ بن جائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں