آ ل پارٹیز کانفرنس کی ناکامی، متحدہ اپوزیشن اتحاد خطرے میں پڑ گیا
شیئر کریں
( رپورٹ : شعیب مختار) اپوزیشن کی دوسری آ ل پارٹی کانفرنس مکمل طور پر ناکام ہو گئی چیئر مین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پاکستان پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے درمیان بڑے تنازعے کی صورت اختیار کر گئی مولانا فضل الرحمان سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے حکومت مخالف تحریک کوحتمی شکل دینے سے متعلق بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف سے دو ٹوک جواب طلب کر لیا گیااپوزیشن اتحاد خطرے میں پڑ گیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اندرونی حلقے باغی سینیٹرز کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے لگے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آ ل پارٹی کانفرنس طلب کی گئی تھی جس میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے سے متعلق اہم فیصلے کیے جانے تھے، تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سربراہان کی غیر حاضری نے مولانا فضل الرحمان کے تمام تر مقاصد پر پانی پھیر دیا جس پر ان کی جانب سے کانفرنس میں شریک دونوں جماعتوں کے وفد سے شدید شکوے کیے گئے ہیںاور پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سربراہان پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا گیا ہے، دونوں جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے سربراہان کی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا مئوقف مولانا فضل الرحمان کے سامنے رکھا گیا ہے جس میںبلاول بھٹو کے غیر ملکی دورے اور شہباز شریف کے کمر درد کے باعث اے پی سی میںشریک نہ ہونے سے متعلق آ گاہ کیا گیا ہے جس کے بعد بھی مولانا فضل الرحمان نے دونوں جماعتوں کے سربراہان سے حکومت مخالف تحریک میں تعاون سے متعلق دو ٹاک جواب مانگ لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے مابین دراڑیں پڑنے کی بنیادی وجہ چیئر مین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی بتائی جاتی ہے نیز مریم نواز کی ہنگامی گرفتاری نے بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر دیا ہے جس پر دونوں جماعتیں متفق ہونے سے گریزاں ہیں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نوازکی گرفتاری کے بعد تمام تر منصوبوں پر پانی پھرنے کے کے باعث پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر زور دینا شروع کر دیا ہے ،جبکہ مسلم لیگ ن بھی تنظیمی ڈھانچے کو تباہ حالی سے بچانے کے لیے اپوزیشن اتحادباالخصوص پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنے پر ناراض رہنمائوں کو منانے پر غور کر رہی ہے۔ اس ضمن میں چیئر مین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے ذمہ دار سینیٹرز کا بھی تعین نہیں کیا جا سکا ہے جس پر دونوں جماعتوں کے مرکزی قائدین ایک دوسرے پر الزامات ڈالنے کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اتحاد سے دوری بلاول بھٹو کو باغی سینیٹرز سے متعلق پیش کی جانے والی خفیہ رپورٹ بھی بتائی جاتی ہے جس میں مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کے ضمیر فروشی میں ملوث ہونے سے متعلق متعدد سینیٹر کے نام پیش کیے گئے ہیں گزشتہ روز ہونے والی اے پی سی میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لانے پراتفاق کیا گیا تھا جس میں دونوں جماعتوں کے قائدین کی غیر دلچسپی کے باعث اپوزیشن جماعتیں کسی بھی قسم کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر رہیں، تاہم دونوں جماعتوں کو ایک مرتبہ پھرایک نشست پر بٹھانے کے لیے مولانافضل الرحمان نے کمر کس لی ہے جس کے تحت رہبر کمیٹی کا اجلاس 26اگست کو طلب کیا گیا ہے جس میں دونوں جماعتوں کے اختلاف رائے پر غور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں 29اگست کو مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دوبارہ ای پی سی کی کال بھی دیدی گئی ہے جس میںدونوں جماعتوں کو رام کرنے کے بعدد حکومت کو ٹف ٹائم دینے سے متعلق اہم فیصلے کیے جائیں گے، تاہم گزشتہ روز کی آل پارٹی کانفرنس کی ناکامی کے بعدمولانا فضل الرحمان دونوں جماعتوں کے سربراہان سے مسلسل رابطے میں ہیں جس کے انہیںکسی قسم کے خاطر خواہ نتائج نہیںمل سکے ہیں۔ آئندہ چند روز میں پیپلزپارٹی کے مولانا فضل الرحمان کی اپوزیشن اتحاد تحریک سے بغاوت کرنے کے ساتھ ساتھ ن لیگ سے راہیں جدا کرنے کے امکانات روشن ہیں ۔