خوف خدا
شیئر کریں
اللہ تبارک وتعالی کا خوف اور آخرت کا خوف وہ واحد شئی ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔اس لئے کہ خوف خداتقوی کی بنیاد اور جڑ ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچنے کوتقوی کہتے ہیںاور جن اشیاء کے کرنے سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہے ان سے اپنے آپ کو بچانا بھی تقوی ہے۔یہ تب ممکن ہے جب انسان کے دل میں خوف خدا ہو اور انسان اللہ تبارک وتعالی کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے۔آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اکثر اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور خود آپﷺ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس دن تیز ہوا ہوتی یا بادل ہوتے تو اس کے اثرات حضورﷺ کے چہرہ انور پر نظر آتے آپﷺ کبھی آگے جاتے تو کبھی پیچھے۔اگر بارش برستی تو آپﷺ خوش ہو جاتے اور آپﷺ کی مذکورہ کیفیت ختم ہو جاتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا:مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں یہ عذاب نہ ہوجسے میری امت پر مسلط کیا گیا ہو(صحیح مسلم)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:میں نعمتوں پر خوشی کیسے مناؤں جب کہ بگل بجانے والے نے بگل کو اپنے منہ میں لے رکھا ہے اس نے پیشانی جھکا رکھی ہے جب کہ کانوں کو سننے کیلئے متوجہ کر رکھا ہے،وہ انتظار کر رہا ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم ملے تو وہ صور پھونک دے،مسلمانوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)وہ وقت آجائے تو ہم کیا کہیں؟ فرمایا: کہو: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں(جامع ترمذی)ایک شخص نے دربار رسالت میںعرض کی کہ یا رسول اللہﷺ میں کس چیز کے ذریعے جہنم سے نجات پا سکتا ہوں؟فرما یا اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے،عرض کی کہ میں اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے جہنم سے نجات کیسے پاؤں گا؟فرمایا:ان دونوں کے آنسوؤں کو اللہ کے خوف سے بہاؤ کیونکہ جو آنکھ اللہ کے خوف سے روئے اسے جہنم کا عذاب نہیں ہوگا۔(الترغیب والترھیب،کتاب التوبۃ والزھد)
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اخروی زندگی میں راحت،چین ،سکون ملے،تو اسے چاہئے کہ دنیاوی زندگی میں خوف خدا کا دامن تھام لے۔ایک روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو خوف خدا میں آنسو بہاتی ہے اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو راتوں کو جاگ کر اللہ کے راستے میں پہرہ دیتی ہے۔حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضورﷺ کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہووہ ہمیں بتا دیں۔پہلے تو وہ خاموش ہو گئیں،پھر فرمایا:ایک رات حضورﷺ نے فرمایا:اے عائشہ !مجھے چھوڑو،آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں،میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم!مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چناں چہ حضورﷺ اٹھے اور وضو کیا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپﷺ کی گود گیلی ہو گئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کی آپﷺ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی،پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہو گئی،پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کو نماز کی اطلاع دینے آئے اور انہوں نے حضورﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ رو رہے ہیں؟حالاں کہ اللہ تعالی نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادیئے ہیں۔تو حضورﷺ نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے تو اس کے لئے ہلاکت ہے،وہ آیت یہ ہے:ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنھار لایات لاولی الالباب۔(آل عمران)
شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو کہا جائے گا کہ لا تخافوا تم کوئی اندیشہ نہ کرو۔یہ اس خوف کا صدقہ ہے جس کے باعث وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہے۔تقوی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نماز،روزہ،زکوۃ،حج،ادا کر کے اپنے آپ کو کامیاب سمجھے بلکہ اس کا اپنے دل میں اللہ کا خوف جاگزیں کرنا ہے کہ میرے ہر ہر قول وعمل کا اللہ کے دربار میں محاسبہ ہو گا۔اگر اس ایک جذبہ(خوف خدا)کو انسان دل میں بسا لے تو مسلمانوں کی زبوں حالی،دینی لحاظ سے پستی وانحطاط پر قابو پاکرہم ایک بار پھر دیندار وفا شعاراور دنیا کے نقشے پر فاتح قوم کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔