پیپلزپارٹی نے وزیراعظم سے جنوبی پنجاب کا انتظامی کنٹرول مانگ لیا
شیئر کریں
بجٹ منظور کرانے کیلئے پیپلز پارٹی کو منانے کا مشن، وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات ۔ملاقات کے لیے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ، سینیٹر شیری رحمان، نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف کے ہمراہ وزیر اعظم ہاؤس پہنچے ۔بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے مطالبات پر مشتمل فہرست وزیراعظم کو دی۔ جس کے مطابق پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب میں انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے ۔۔ پیپلزپارٹی کا یہ بھی موقف ہے کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی اور بجٹ کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کئے ۔ بجٹ کے حوالے سے خدشات سے بھی وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی مرکزی حکومت کا حصہ نہ ہوتے ہوئے اس کے قیام اور استحکام کی کنجی اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے۔ جس کے باعث وہ مختلف آئینی عہدوں کے ساتھ حکومت کا حصہ نہ ہوتے ہوئے اپنی حمایت کی قیمت وصول کر چکے ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کو مرکزی حکومت اور وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کے لیے مسلم لیگ نون کی حکومت ایک مشن پہلے ہی شروع کر چکی ہے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے مختلف رہنماؤں کی جانب سے بار بار یہ کہا جار ہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر حکومت کا حصہ نہ بننے کی رائے غالب ہے۔ مگر اندرونی حالات سے واقف حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی یہ ماحول محض حکومت میں شمولیت کے لیے ایک بھاری قیمت وصولنے کے لیے بنا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا اہم اور دیرینہ ہدف یہ رہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح پنجاب میں اپنی بحالی ممکن بنائیں۔ مسلم لیگ نون کی عوامی سطح پر غیر مقبولیت اور اپنا واحد عوامی ووٹ بینک پنجاب بُری طرح مجروح ہے جس کے باعث پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں خود کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کے لیے انتظامی کنٹرول کے حصول کو اپنا مشن بنا چکی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کے اندروفاق اور پنجاب کی سطح پر چچا بھتیجی کے معاملات بھی دگرگوں ہونے کے باعث وزیراعظم کے لیے یہ ایک مشکل ترین ہدف ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے معاملات کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پر اثر انداز ہو سکیں۔ چنانچہ پیپلزپارٹی اس حوالے اپنا دباؤ مسلسل بڑھا رہی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون میں ایک حلقہ پیپلزپارٹی کے اس رویے کو بلیک میلنگ قرار دے رہا ہے۔ گزشتہ روز اس تناؤ میں تب اضافہ ہوا جب بلاول بھٹو کی وزیراعظم سے ملاقات سے قبل پیپلزپارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا اقتدار پیپلزپارٹی کی مرہونِ منت ہے ، پیپلز پارٹی کے 45 ارکان مسلم لیگ (ن) کی لائف لائن ہیں،اگر پیپلز پارٹی نہ ہوتی تو پوری مسلم لیگ (ن) آج جیلوں میں ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو مائنس کر کے آپ وزیر اعظم ہاؤس نہیں بلکہ اڈیالہ جیل میں ہوں گے ، حنیف عباسی تفریق اور انتشار کی سیاست کو ہوا دینا بند کرے ، پہلے بھی بھٹو شہید کے خلاف بیان دے کر حنیف عباسی نے مکروہ سیاسی عمل کیا تھا، مسلم لیگ (ن) کو اپنی صفوں میں موجود حنیف عباسی جیسوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے ۔حسن مرتضی نے کہا کہ پیپلزپارٹی پارلیمانی جمہوریت اور مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے ، پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف آئندہ بیان بازی کرنے والے کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔بعد ازاں حسن مرتضی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنی بلیک میلنگ بند کرے ، ہم اکیلے ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اڈیالہ جیل جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مرچ مصالحے والے بیانات دے کر مستقبل کی سیاست بچانا چاہ رہی ہے ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ساس بہو کے رشتے کے مطابق چل رہی ہے ۔تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ نون کے معاملات مستقبل میںمزید خراب ہوسکتے ہیں ، تاہم مسلم لیگ نون کا موجودہ دردِ سر بجٹ کی منظوری ہے جس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔