میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۱ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کر دی۔الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔سپریم کورٹ نے لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے ۔الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 140 کے تحت الیکشن کمیشن نے ججز تعیناتی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھا، الیکشن کمیشن نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو 14 فروری کو خط لکھا، الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز کے پینل کی لسٹ فراہم کی جائے ، الیکشن کمیشن نے ٹربیونل کا نوٹیفکیشن اسی روز کر دیا تھا، راولپنڈی، بہاولپور ٹربیونل کا نوٹیفکیشن 26 اپریل کو کیا گیا۔معزز کا لفظ استعمال کرنے پر دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی سرزنش کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ آپ کی تعلیم کیا ہے ؟کہاں سے پڑھے ہیں؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ میں نے انگلستان سے قانون میں ماسٹر کیا ہوا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا انگلستان میں بھی پارلیمنٹ کے لیے معزز کا لفظ استعمال ہوتا ہے ؟ ججز، پارلیمنٹیرینز کو معزز کہا جاسکتا ہے ، پارلمینٹ یا عدالت کو نہیں۔وکیل سکندر بشیر نے معزز لفظ استعمال کرنے پر معذرت کر لی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایسا کر سکتے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے لیے بھی معزز کا لفظ استعمال کریں۔وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو خط میں لکھا کہ ججز کے پینل کی لسٹ دی جائے ، خط میں لکھا لسٹ کو دیکھ کر ٹربیونل کے لیے ججز کو تعینات کریں گے ، ٹربیونل میں دو ججز کی تعیناتی کے لیے طریقہ کار نہیں دیکھا گیا۔دورانِ سماعت وکیل سلمان اکرم راجہ کی بولنے کی کوشش، چیف جسٹس نے روک دیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بات کیوں نہیں کی، آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کر سکتے ، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے ؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے ؟ پریزیڈینسی جانے کا اتفاق ہوا تو الیکشن کمیشن بالکل سامنے ہے ، الیکشن کمیشن کیسے صدارتی آرڈیننس بنا رہا ہے ؟پارلمینٹ کی توہین ہو گی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کرانا ہماری ذمہ داری ہے ، ہائی کورٹ دور رہے ، آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ صدارتی آرڈیننس لا سکتے تھے ؟ کیا یہ قانونی ہے ؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں نے قانون نہیں بنایا، جنرل بات سے زیادہ نہیں کر سکتا، آرڈیننس کا دفاع نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیسز کی ذمے داری میری ہے ، اپنی کمزوری کو وجہ نہ بنائیں۔وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ میں نے آخری بار سنا تھا تو لاہور ہائی کورٹ میں شاید 62 ججز تھے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے

استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں لگے گا۔وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے 9 جج مانگے تھے ، 2 دیے گئے ، الیکشن کمیشن کو 4 اپریل کو 6 جج دیے گئے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن ٹربیونل کے لیے آئین کیا کہتا ہے ؟ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے ، ہم قانون کی حفاظت کرتے ہیں، جس کا کام ہے ، اسے کرنے دیا جائے ، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے ، آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہوا، اس لیے نوٹس نہیں کر سکتے ۔سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے ؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے لیکن بتانا چاہ رہے ہیں ہائی کورٹ نے کیا کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فارم 45 والی بات الیکشن ٹربیونل میں ہے ، شاید اپیل ہمارے پاس آئے ، ہم قانون دیکھیں گے ، ہمارا کام یہ دیکھنا نہیں کہ آپ بھاری ووٹ سے جیتے یا نہیں، ہمیں نہیں معلوم آگے پیچھے کیس کیا ہیں، درخواستیں زیر التواء ہیں تو کاپی تو ساتھ لگائیں۔وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ آج لے کر جاتا ہے تو اثرتوہم درخواستگزاروں پر تو پڑے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ درخواستیں التواء میں ہونے کے باوجود سن رہے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ جاری کیا، کل سب آجائیں گے ہمیں بھی سن لیں، کسی کونہ نہیں کر سکتے ۔وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ہماری ہائی کورٹ میں درخواستیں التواء ہیں، تمام امیدوار کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ التواء کیسے ہوسکتی ہے ؟ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ تو دے دیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں