حق دوستی
شیئر کریں
پاکستان کی کورٹ مارشل اتھارٹی نے بھارتی جاسوس اور حاضر سروس نیول آفیسر کلبھوشن یادیو کو جاسوسی ،دہشت گردی اور خانہ جنگی کی سازش کے جرم میں سزائے موت سنائی ۔کلبھوشن کا معاملہ عام عدالت میں چل بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ حاضر سروس انڈین نیول آفیسر ہے اور فوجی آفیسر کے جرائم کا معاملہ بھی کورٹ مارشل اتھارٹی ہی طے کرتی ہے ۔
جب کلبھوشن گرفتار ہو ا تو بھارت نے اول اس کو اپنا شہری ماننے سے انکار کیا پھر شہری تسلیم کیا لیکن فوجی تسلیم نہیں بلکہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک کاروباری شخص ہے جو کاروبار کے سلسلے میں ایران میں مقیم ہے ،لیکن ناقابل تردید ثبوت کے بعد بھارت نے خاموشی اختیار کر لی، اس کا اصرار یہی تھا کہ کلبھوشن تک قونصلر رسائی دی جائے۔ لیکن ویانا کنونشن ہو یا اقوام متحدہ کا حقوق انسانی چارٹر، جاسوس اور دہشت گرد تک قونصلر رسائی کی کہیں بھی گنجائش نہیں۔ پھر ایران نے کلبھوشن تک قونصلر رسائی مانگی جب کہ ایران کا کلبھوشن سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ ایران کو اس معاملے میں بھارت اور کلبھوشن کا سہولت کار ہے جو سندھ کے سمندری علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے ۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں ایک امن کی لہر آئی تھی ۔دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کا قتل ختم ہوا تھا اور گیس پائپ لائن اور ریلوے لائنوں کو دھماکے سے اُڑائے جانے والا عمل بھی تھم گیا تھا ۔
کلبھوشن کی گرفتاری سے قبل دفاعی اداروں نے اس کے پورے نیٹ ورک کا احاطہ کیا تھا اور اس کی گرفتاری کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں اس کے پالے ہوئے ایجنٹ بھی گرفتار ہوئے ان میں مقامی افراد بھی شامل ہیں۔ان گرفتاریوں کے بعد امن کی جو لہر آئی تھی کلبھوشن کی سنائی جانے والی سزا کا ردعمل اتنا گہرا نہیں ہے جتنا ممکن ہو سکتا تھا ۔گوادر اور تربت کے واقعات افسوسناک ہیں جن میں سندھ سے تعلق رکھنے والے محنت کش ان دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ ان وارداتوں نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں کہ کورٹ مارشل اتھارٹی کے اس فیصلے کے بعد ردعمل جو متوقع تھا، لیکن اس کے سدباب کا کوئی پیشگی اہتمام نہ کیا جا سکا۔ گوادر کا واقعہ تو پھر بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ فیصلہ سنائے جانے کے تقریباً دو مہینے بعد ہوا ہے لیکن گوادر کے سانحہ کے بعد بلوچستان میں خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا تاکہ تربت جیسا واقعہ رونما نہ ہوتا اس واقعہ نے سندھ اور بلوچستان کے عوام کے درمیان قائم صدیوں قدیم تعلق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سندھ میں ان واقعات کو منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے لیکن قوم پرست رہنما ایاز لطیف پلیجو کا کردار قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ان واقعات کو اس انداز میں نہیں لیا ہے کہ جس سے سندھ اور بلوچستان کے درمیان تناو¿ پیدا ہو، بلکہ صدیوں پرانے تعلق کا حوالہ دے کر ملک دشمنوں کی لگائی جانی والی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔دیگر رہنماو¿ں کو بھی ان واقعات پر احتجاج تو ضرور کرنا چاہیے لیکن انہیں سندھ بلوچستان تصادم کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔
بھارت 1974ءمیں ایک معاہدے کے ذریعے دولت مشترکہ کے رکن ممالک کے درمیان معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے دائرہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکا۔ اس معاہدے کے تحت دولت مشترکہ کے ارکان کے درمیان پیدا ہونے والے کسی بھی تنازعہ کا حل باہمی مذاکرات کے ذریعے کیا جائے ۔جس وقت بھارت نے یہ معاہدہ کیا تھا اس وقت پاکستان دولت مشترکہ کا رکن نہیں تھا لیکن جس وقت کلبھوشن کا معاملہ سامنے آیا ہے اس وقت پاکستان دولت مشترکہ کا رکن ملک ہے، یوں یہ معاملہ بھارت اپنے معاہدے کے مطابق بھی بین الاقوامی عدالت میں نہیں لے جا سکتا تھا۔ لیکن بھارتی قیادت معاہدوں کا احترام کرنے میں انتہائی غیرذمہ دار ثابت ہوئی، یہ پہلا موقع نہیں ہے ،نہ ہی مودی پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں جو اپنے کیے گئے معاہدوں سے منحرف ہوئے ہوں،آزاد بھارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے وعدہ خلافی اور ہٹ دھرمی کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ جنوری1948ءمیں پہلے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو مسئلہ کشمیر لیکر اقوام متحدہ گئے تھے اور پنڈت جی کی ہمشیرہ سروجنی نائنڈو نے بھارتی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی فورم پر وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں جنگ بندی کرائی جائے جس کے بعد کشمیری عوام کو ان کی رائے کے اظہار کا حق دیا جائے گا اور وہ بھارت یا پاکستان جس کے ساتھ الحاق کرنا چاہے اس کا اختیار دیا جائے گا۔ لیکن جیسے ہی جنگ بندی ہوئی پنڈت جی اپنا وعدہ بھول گئے اور کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کو مستحکم کرنا شروع کر دیا تقریباً70 سال کا عرصہ گزر چکا لیکن اقوا م متحدہ اپنے فورم کی عزت رکھنے پر تیار نہیں ہے ۔
جہاں معاملہ مسلمانوں کے مفاد کا ہو، وہاں اقوا م متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جن میں بین الاقوامی عدالت انصاف بھی شامل ہے ،گہری نیند سوئے رہتے ہیں لیکن جہاں کسی مسلمان یا مسلمان ملک کو نقصان پہنچانا مقصود ہو تو یہ ادارے فوری حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق جاسوس اور دہشت گرد کے حقوق معطل ہو جاتے ہیں اور اگر دہشت گردی دوسرے ملک میں کی جائے تو اس ملک کو استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق دہشت گرد کے ساتھ معاملات کرے ۔پاکستان میں دہشت گردی کی سزا موت ہے اور کلبھوشن کا معاملہ دہشت گردی اور جاسوسی کا ہے، یوں جو اسے سزا سنائی گئی ہے وہ عین قانون کے مطابق ہے اور اس کے خلاف سماعت کا اختیار بھی کورٹ مارشل اتھارٹی کو تھا کہ وہ ایک حاضر سروس فوجی آفیسر ہے جس کے حاضر سروس ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں یوں اس کا معاملہ کورٹ مارشل اتھارٹی ہی طے کر سکتی تھی ۔کورٹ مارشل کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف نے آرمی ایکٹ کے تحت اس سزا کی توثیق بھی کر دی ہے ۔پاکستان میں رائج آرمی ایکٹ معمولی ترمیمات کے ساتھ وہی ہے جو بھارت میں ہے کہ بھارت اور پاکستان نے برٹش آرمی ایکٹ کو ہی اپنے یہاں رائج کیا ہے ۔
لیکن وہ دوست ہی کیا جو دوست کے کام نہ آئے اور جب دوست بھی ناصرف دوست ہو بلکہ نام کا بھی سجن ہو تو پھر تو حق دوستی دہرا ہو جاتا ہے کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزا نے بھارت میں صف ماتم بچھا دی تھی ہر شخص چیخ رہا تھا کہ وطن کا بچہ دشمن ملک میں کسی وقت بھی موت کا شکار ہو جاتا ہے اور مودی حکومت خاموش ہے لیکن مودی جانتے تھے کہ انہیں کونسا پتا کس وقت کھیلنا ہے، فضاءبنائی گئی، پاکستان سے عالمی عدالت انصاف کے تمام فیصلے تسلیم کیے جانے کے معاہدے پر دستخط کرائے گئے۔ اس کے بعد مودی سرکار عالمی عدالت انصاف میں پہنچی اور دوسری جانب سجن جندال کو” نجی“دورے پر پاکستان بھیجا گیا۔ اسلام آباد آمد ہوئی، وزیراعظم ہاو¿س میں ملاقات کے بعد وزیراعظم اپنے سجن کو لیکر مری کے پرفضاءمقام کی طرف روانہ ہو گئے۔ دوران سفر اور مری میں کیا رازونیاز ہوئے یہ”دو سجنوں،دو دوستوں “کے معاملات تھے جن کا علم میں آنا عوام کے مفاد میں نہیں تھا۔ بھارت تسلیم کر چکا تھا کہ دولت مشترکہ کے رکن ممالک کے درمیان معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف کا دائرہ ختم ہو جائے گا اور بھارت اس سے قبل بہت سے معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کے ماننے سے انکار ی رہا ہے ۔لیکن یہ معاملہ بھارت کے اپنے مفاد میں تھا کہ وہ اپنے ” ہونہار سپوت “ کے بچاو¿ کے لیے اقدامات کرے۔ یوں ایک جانب ” سجنوں کی ملاقات ہوئی“ دوسری جانب بین الاقوامی عدالت انصاف میں پاکستانی وکیل نے کیا دلائل دیے کہ بھارت اپنے کیے گئے معاہدوں کے باوجود عبوری فیصلہ اپنے حق میں لینے میں کامیاب ہو گیا۔ قانون کی دنیا میں ایسے عبوری فیصلے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ تفصیلی فیصلوں کی سمت کا بھی تعین کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تفصیلی سماعت کے بعد کیا فیصلہ آتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت بھارت میں شادیانے بج رہے ہیں اور پاکستان میں سزا سنانے والے سناٹے میں آ گئے ہیں۔ یہ حق دوستی ہے جو ادا کیا گیا، اس معاملے میں نواز شریف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے پاکستانی دوستوں کو تو معاف کرنے پر آمادہ نہیں لیکن سجن جندال نے نہ جانے کیا منتر پڑھا ہے کہ اس کا ہر دورہ اس کے لیے کامیابی کی نوید لیکر آتا ہے۔