محکمہ ماحولیات سندھ ، سیپا میں کرپشن کرنے کا نیا طریقہ نکال لیا گیا
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا میں کرپشن کرنے کا نیا طریقہ، انسپکٹر ز کے بجائے 150 نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو فیلڈ میں بھیج دیا گیا، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے ذریعے شہر کی فیکٹریز سے کروڑوں روپے کی وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) میں عام طور پر انسپکٹر کو فیلڈ میں روانہ کرنے روزانہ سینکڑوں فیکٹریز سے کروڑوں روپے وصولی کی جاتی رہی، انسپکٹرز کے سینئر ہونے اور ان کی جانب سے وصولی کی پوری رقم نہ دینے کے باعث سیپا میں کرپشن کے سرپرست اعلیٰ نے وصولی کا نیا طریقہ اختیار کیا ہے، نان کیڈر ڈی جی سیپا نعیم احمد مغل پہلے محمد حبیب اللہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر کینیڈین شہری محمد کامران خان کے ذریعے انسپکٹرز سے وصولی کرواتے رہے لیکن سینئر انسپکٹرز کی جانب سے حصہ نہ دینے پر کرپشن کا نیا اور منفرد طریقہ اختیار کیا گیا، نان کیڈر ڈی جی سیپا نعیم احمد مغل نے زبانی احکامات جاری کرتے ہوئے محکمہ ماحولیات کے نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں کارخانوں، فیکٹریز میں بھیج کرچیکنگ اور معائنہ کرکے وصولی کی ذمہ داری عائد کی ہے، نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو فنی تربیت دینے کے بجائے کرپشن کرنے کا طریقہ سکھانا شروع کیا گیاہے، نئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شہر کی فیکٹریز سے وصولی کے بعد متعلقہ ڈپٹی ڈائریکٹر کو رقم جمع کرواتے ہیں اور یہ رقم بعد میں سیپا کے کرپشن سرپرست کو پہنچتی ہے۔محکمہ ماحولیات کے ایک افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انوائرمنیٹل انسپکٹرز کی موجودگی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو فیلڈ میں بھیجنا غیر قانونی ہے اور کسی بھی وقت انسپکٹرز کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے ٹکرائو ہوسکتا ہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہر میں غیر قانونی وصولی پر سیپا کے انسپکٹرز کو صنعتی مالکان اور مزدوروں نے تشدد کا نشانا بھی بنایا گیا تھا۔