چھپکلی کے خون میں جراثیم کش دوا
شیئر کریں
ورجینیا(ویب ڈیسک) امریکی ماہرین نے دنیا کی سب سے بڑی چھپکلی یعنی ’’کموڈو ڈریگن‘‘ کے خون میں ایسے 48 پروٹین دریافت کرلیے ہیں جو انتہائی سخت جان قسم کے بیکٹیریا تک کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ سائنسدان پہلے سے جانتے تھے کہ جنگل میں رہنے والی کموڈو ڈریگن کو ہر وقت انتہائی خطرناک قسم کے بیکٹیریا کا سامنا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے منہ میں بھی تقریباً 50 اقسام کے جرثومے دریافت کیے جاچکے ہیں جو کسی بھی دوسرے جانور کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن کموڈو ڈریگن کو ان سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور وہ صحت مند رہتی ہے۔ 3 میٹر لمبی اور 70 کلوگرام وزنی کموڈو ڈریگن کو دنیا کی سب سے بڑی چھپکلی کا اعزاز بھی حاصل ہے جس کے بارے میں ماہرین کو اندازہ تھا کہ شاید اس کے خون میں ایسا کوئی مادہ ہوتا ہے جو اسے مسلسل اتنی بڑی تعداد میں خطرناک جرثوموں کی موجودگی کے باوجود بھی مکمل طور پر محفوظ رکھتا ہے۔ورجینیا میں جارج میسن یونیورسٹی کے حیاتی کیمیادانوں (بایوکیمسٹس) کی ایک ٹیم نے یہ جاننے کے لیے مختلف کموڈو ڈریگنز کے خون کے نمونے حاصل کیے اور تجربہ گاہ میں باریک بینی سے جائزہ لیا کہ ان میں ایسے کونسے مرکبات ہیں جو بیکٹیریا کو ہلاک کرنے کی خصوصی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس تفصیلی تجزیئے کے دوران انہوں نے کموڈو ڈریگن کے خون میں ایسے 48 پروٹین دریافت کیے جو جراثیم کش خصوصیات رکھتے تھے۔ پیٹری ڈش میں رکھے گئے تقریباً ہر قسم کے جرثوموں کو ان پروٹینز نے بڑی سہولت سے ہلاک کردیا جب کہ ان میں وہ بیکٹیریا بھی شامل تھے جن پر کوئی اینٹی بایوٹک دوا بھی اثر نہیں کرتی۔ ٹیم کی ایک رکن کا کہنا ہےکہ یہ پروٹین چونکہ ایک طویل عرصے میں قدرتی ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد جراثیم کو ہلاک کرنے کے قابل ہوئے ہیں اس لیے اگر انہیں استعمال کرتے ہوئے کوئی نئی جراثیم کش دوا تیار کرلی جائے تو وہ نہ صرف زیادہ مؤثر ہوگی بلکہ جرثومے بھی اس کے خلاف آسانی سے مزاحمت پیدا نہیں کرپائیں گے۔ البتہ اس دریافت کو انسانوں کے لیے دوا بننے سے قبل کئی مراحل سے گزرنا ہوگا کیونکہ پہلے اس کی آزمائش جانوروں پر کی جائے گی جس میں کامیابی کے بعد ہی اسے محدود طور پر انسانوں میں آزمایا جائے گا۔ اگر ان طبی تجربات میں بھی کامیابی حاصل ہوئی تو پھر اس کی وسیع تر آزمائش کی جائے گی جس کے بعد امریکا کی ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘(ایف ڈی اے) اسے انسانوں میں بطور دوا استعمال کرنے کی حتمی منظوری دے گی۔ اس پورے عمل میں 10 سال لگ سکتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب ہر مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو۔ اس دریافت کی تفصیلات ’’جرنل آف پروٹیوم ریسرچ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔