جنگ کے بغیر فتح کاحصول
شیئر کریں
منیر اکرم
قدیم چینی فوج کے حکمت عملی کے ماہر سن ٹی زو نے لکھاتھا کہ جنگ میںبالادستی جنگ کیے بغیر دشمن کوشکست دیناہے، فی الوقت امریکا اور بھارت دونوں ہی پاکستان کے خلاف اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اسی نظریے پر عمل پیرا نظر آرہے ہیں۔
بھارت پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی پر کارفرماہے ایک طرف وہ پاکستان کوکشمیریوں کی حمایت کی سزا دینے کے لیے دہشت گردوں کاسرپرست ملک ثابت کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پراپگنڈہ کامحاذ کھولے ہوئے ہے اوردوسری جانب روزانہ کنٹرول لائن اورورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزیاں کررہاہے اور تیسری جانب پاکستان کوسرجیکل حملوں یعنی محدود جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے ،اورچوتھی جانب اس نے پاکستان کوعدم استحکام کاشکار کرنے کے لیے فاٹا اوربلوچستان میں سبوتاژ اورتخریب کاری کی کارروائیاں تیز کردی ہیںاوروہ ان کادائرہ گلگت بلتستان تک بڑھا کر پاکستان کوبھارتی مطالبات تسلیم کرنے پر مجبورکرناچاہتاہے۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی ،حقوق انسانی کمیشن اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم میں بھرپور مہم چلائے اور کشمیری عوام کی جدوجہد کوکچلنے کے لیے بھارت کے سفاکانہ اقدام اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کرنے کی بھرپور مذمت کرے۔ لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے نیم دلی کے ساتھ کیے جانے والی چند کوششوں کے پاکستان نے اب تک دفاعی طرز عمل اختیار کیے رکھا ہے ، اوراس نے پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والا ملک قرار دئے جانے سے بچنے کے لیے تمام تر توانائیاں لگا رکھی ہیں ۔ اس کی آواز بہت نحیف اور کوششیں مایوس کن ہیں ۔
قومی سلامتی اور وقار کاتقاضہ ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے دراز دستیوں اوردہشت گردانہ مداخلت کا بھرپور اورمنہ توڑ جوا ب دے ، مذاکرات کی بے نتیجہ پیشکشوں سے کمزوری کااظہار ہوتا ہے۔پاکستان کے سلامتی مشیر کی بھارت کے بیک چینل کے ساتھ بار بار ملاقاتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جس میں صرف یہ کہاجاتاہے کہ اگر پاکستان کشمیریوں کی حمایت ترک کردے تو سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ جبکہ ایسا نہیں ہوگا۔ د راصل علاقائی بالادستی کے حصول کے لیے یہ بھارت کا پیشگی منصوبہ یا مقصد ہے پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ کشمیریوں کی مدد کرے لیکن ایسا کس طرح کیاجاسکتاہے اس کے لیے حکمت عملی تیار کرناہوگی۔
اسی طرح امریکا کی جانب سے درپیش چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھی واضح سوچ ،تحمل کے ساتھ سفارتکاری اوراگر ضرورت محسوس ہو تو جارحانہ جواب دینے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال اگست سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو تین بڑے مقاصد کی تکمیل پر مجبور کرنے کے لیے جن سے پاکستان کی قومی سلامتی کے مفادات پرکاری ضرب لگ سکتی ہے پاکستان کے خلاف دھمکیوں ،ڈرانے دھمکانے اور اس کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کررکھی ہے۔
امریکا کے ان تین مقاصد میں اول افغان طالبان کے خاص طورپر حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے، دوم تمام کشمیری گروپوںکو قانونی طورپر ختم کرنا اور ان کے وجود کامکمل خاتمہ کرنا،اور تیسرے یکطرفہ طورپر ایٹمی اسلحہ کو محدود کرنا یعنی کوئی کم یازیادہ فاصلے کے میزائل تیار نہ کرنا اور پاکستان کی ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو کی پالیسی کو امریکا کے ساتھ نتھی کرنا شامل ہے۔ پاکستان کی بے عزتی کرنے کے ساتھ ہی امریکا کی تمام دفاعی امداد روک چکا ہے،اور پاکستان کے غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنے اور پاکستان کی انٹیلی جنس کے افسران کے خلاف پابندیاں عاید کرنے ، پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے اورپاکستان کی حدود میں یکطرفہ اقدامات کرنے یعنی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ڈرون حملے کرنے ، اورسپیشل فورسز کی جانب سے کارروائیاں کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔پاکستان نے اس پر ابھی تک بہت نرم ردعمل کااظہار کیاہے۔
تاہم پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار حکام نے اس کے ردعمل میں امریکا کی جانب سے کسی بھی تادیبی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہونے کااعلان کیاہے،پاک فضائیہ کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی غیر ملکی ڈرون کومارگرایا جائے گا۔
خیال کیاجاتاہے کہ امریکا (اوربھارت) براہ راست کسی ٹکرائو سے گریز کریں گے اور بالواسطہ طورپر دبائو بڑھانے کی کوشش کریں گے، پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا بھی اسی طرح کی کارروائی میں سے ایک ہے۔ جس سے غیر ملکی قرضوں میں رکاوٹ پڑے گی اور تجارت متاثر ہوگی۔
یہ کوئی حادثاتی بات نہیں ہے کہ سندھی علیحدگی پسند کو امریکی کانگریس میں بیان دلوانے کے لیے لایاگیا اور آزاد کراچی کے اشتہارات امریکی ٹیکسیوں پر نظر آئے، اسلام آباد میں اچانک ایک پختون حقوق کی تنظیم ابھر کر سامنے آئی اور افغان صدر اشرف غنی نے اس کی فوری حمایت کاٹوئٹ کیااور ایک افغان سفارتکار کا ایک مضمون امریکی میڈیا میں شائع ہوا جس میں فاٹا کو افغانستان کے ساتھ ملانے کی وکالت کی گئی ۔
پاکستان امریکی پالیسی پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہا ہے ،پاکستان امریکا میں اپنی لابنگ کے لیے لابسٹوں کی خدمات بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے ،اس کے برعکس اسلام آباد براہ راست کابل کے ساتھ متحدہ حکومت کے لیے پل تیار کرنے کی کوشش کررہاہے ،ایسا معلوم ہوتاہے کہ افغان طالبان اور پاکستان کے پالیسی ساز یہ حقیقت نہیں سمجھ پائے ہیں کہ افغانستان کی کٹھ پتلی غنی حکومت نہیں بلکہ امریکا افغانستان کو فائرکرنے کاحکم دیتاہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے امن اوراستحکام کا معاہدہ افغان صدر اشرف غنی کو کابل میں ہونے والے حالیہ حملوں کاپاکستان پر الزام دھرنے سے نہیں روک سکا۔ اور اشرف غنی کی جانب سے پاکستان کے وزیر اعظم کا فون سننے سے انکار کے باوجود پاکستان اس افغان وفد کااستقبال کرنے پر رضامند ہوگیاجسے پاکستان کے خلاف افغانستان کے بے بنیاد الزامات کی تشہیر کے لیے بھیجا گیاتھا۔
پاکستان کوچاہئے کہ وہ افغانستان میں مستقبل کے لیے ان تمام عناصر سے تعلقات استوار کرے جو بھارت کے فنڈ سے چلائے جانے والے پاکستان مخالف حلقے میں شامل نہیں ہیں جن میں کنارے لگائے گئے جنگجو سردار،افغان پناہ گزینوں میں موجود بااثر افغانی شامل ہیں۔ پاکستان کو چین، روس ،ایران اوروسطی ایشیا کے ممالک سے تعاون کرنا چاہئے جوافغانستان سے انتہا پسند دہشت گرد داعش کے ارکان کی مداخلت سے پریشان ہیں ،اس کے علاوہ پاکستان کو ان افغانیوں سے مصالحت کوفروغ دیناچاہئے جو ایک سیاسی سمجھوتے کے خواہاں اورحامی ہیں،یہ بات واضح ہے کہ کابل کی حکومت ایسے معاہدے کی حمایت نہیں کرسکتی کیونکہ اگر ایسا کوئی سمجھوتہ ہوگیا تووہ اقتدار سے محروم ہوجائے گی۔
پاکستان کوچاہئے کہ وہ امریکا کو اس بات کاقائل کرنے کی کوشش کرے کہ پاکستان کی سرزمین پر افغان جنگ ناقابل قبول اور غیر منصفانہ ہے ، کیونکہ اس سے پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں انتہاپسندی اوردہشت گردی کو فروغ ملے گا۔افغان طالبان سے مصالحت اورداعش اورالقاعدہ اور اس کی ذیلی تنطیموں کی مشترکہ طورپر مخالفت کے لیے سیاسی مذاکرات کی پیشکش علاقائی امن اوراستحکام کا سب سے اچھا طریقہ ہے ،اس سے اس خطے سے طویل المیعاد بنیادوں پر ہر طرح کی انتہاپسندی اورجنگجوئی کاخاتمہ ہوجائے گا۔تاہم اس کا انحصار مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کو انصاف کی فراہمی اور اس خطے میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے تیزی سے اقدامات پرہوگا۔
جب تک ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار ہیں اسٹریٹیجک تحمل اچھی پالیسی ہے ،ان کی ہمہ جہت جارحانہ پالیسی کے نتیجے میں ہوسکتاہے کہ ایران، شمالی کوریا، روس اور چین کے ساتھ کثیرالجہتی بحران پیدا ہوجائے جس سے امریکا کی فوجی اورسیاسی طاقت کاخاتمہ ہوجائے گا،جس کے بعد ٹرمپ کو اپنی ابتدائی پوزیشن پر واپس آناپڑے گا اور افغانستان کوچھوڑنے پر مجبور ہونا پڑے گا جس سے بھارت کی منہہ زوری کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
مشرق اورمغرب سے سامنے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی رہنمائوں اورسیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مشاورت کے ساتھ ایک مربوط پالیسی تیار کرنے کے لیے پاکستان کے محب وطن دانشوروں اورتجربہ کار سفارتکاروں کی مددا ور معاونت حاصل کی جانی چاہئے ۔
ایک دوسرے فوجی فلاسفر تھوسائی ڈائیڈز کے مطابق وہ معاشرہ جو اپنے اسکالرز کو جنگجوئوں سے الگ کردے اس کی سوچ بزدلانہ ہوجاتی ہے اورایسی جنگ بیوقوف لڑتے ہیں۔
(اس مضمون کے مصنف امریکا میں پاکستان کی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں)