درپیش خطرات پر یکساں موقف کی ضرورت
شیئر کریں
جمعہ13جنوری کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پاکستان جمہوری تحریک کے تحت بڑا و بھر پورجلسہ ہوا۔عوام بڑی تعداد میں شریک ہوئی تھی۔ مولانا فضل الرحمان ایک روز پہلے کوئٹہ پہنچے بعد ازاں سڑک کے راستے لورالائی گئے ۔ جلسہ میں محمود خان اچکزئی شریک تھے۔ اسی روز افواج پاکستان کے سر براہ جنرل قمر جاوید باجوہ کوئٹہ میں تھے۔ سدرن کمانڈ کے اندر ان کی مصروفیت اہم نوعیت کی تھی۔ ہزارہ برادری کے سیاسی اکابرین ، علماء اور مچ واقعہ میں قتل ہونے والے ہزارہ مزدوروں کے اہل خانہ سے ملاقا ت کی۔ ان سے خطاب کیا۔ صوبے کے اندر امن وامان اور افغانستان سے جڑے سراحدات بارے انہیں بریفنگ دی گئی ۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شریک تھے۔ ملک کو درپیش تخریب کاری اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی خدمات گراں قدر ہیں۔ فورسز اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھاچکی ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ معاشرے کے دوسرے طبقات کے ساتھ فوج اور اس کے ماتحت ادارے بھی دہشتگردوں کے ہدف ہیں۔ ملک کو غالباً تین عشروں سے دہشتگردی کا سامنا ہے، مگر بد قسمتی سے سیاسی سطح پر ایک رائے قائم نہ ہوسکی ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاست میں فوج اور اداروں کے کردار پر معترض ہیں۔ ان کے رویوں سے ایسا بھی لگتا ہے کہ دہشتگردی و امن اور ملک کی سلامتی فوج و سیکورٹی اداروں ہی کا درد سر ہے ۔
یقیناا افواج سمجھتی ہیں کہ ملک کی سلامتی ، تحفظ اور امن کے قیام پر وہ کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اورجب حساس نوعیت کے معاملات پر مصلحتوں کے چادر اوڑھے جائیں گے، سکوت کا وطیرہ اپنایا جائے گا، تو ایسے میں لا محالا ریاست ایسے اقدامات پر مجبور ہوتی ہے کہ جہاں قانون اور عدل کے تقاضے بہ امر مجبوری پیش نظر نہیں رہتے ۔ اگر سول حکومتیں اور سیاسی جماعتیں درپیش نازک صورتحال پر قومی مصالح کے تحت واضح اقدام و موقف اپنائے گی تو متفقہ قومی رائے سامنے آئے گی۔ یوں دائرہ کار و حدود ر واضح ہو ں گی۔عوام کے سامنے حقیقی منظر نامہ صاف ہوگا ۔ بیرون و اندرون سے کسی کے لیے خلل و تخریب کی گنجائش نہیں رہے گی ۔یعنی فاٹا کی صورتحال ، افغانستان کے اندر سے پاکستان مخالف عملیات اور بلوچستان کی صورتحال پر ایسی ہی سیاست ہوئی ہے۔ بعض جماعتوں نے فی الواقع ریاست متصادم ترجیحات اپنا رکھی ہیں۔ گویا ریاست مخالفت میں سیاست کرتی ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر علی الخصوص پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جیسے کابل حکومت کی ترجمانی پر بھی مامور ہو۔ بلوچستان نیشنل پارٹی سے شدت پسندوں کی حمایت کا تاثر ابھر تا ہے ۔ مچھ میں مزدور وں کا دہشتگردوں نے قتل کردیا بجائے دہشتگردوں کی مذمت کے ریاست اور سیکورٹی اداروں کی طرف موڑنے کی کوششیں ہوئیں یعنی سیاسی جماعتیں اگر صدق دل سے سیاست اور جمہوری عمل میں کسی قسم کی مداخلت وو قدغنوں کے آگے سیسہ چلائی دیوار بنیں ۔لازم ہے کہ سر حد پار سے مداخلت ، دہشتگر دی علیحدگی شدت و انتہا پسندی جیسے مسائل بھی اپنی بات اور پالیسیوں کا حصہ بنا ئیں ،اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ یوں کسی کو درپیش ان مسائل کو جواز بنانے کا موقع نہ ملے گا ۔
پی ڈی ایم کے اندر کی جماعتوں کے خیالات ، نظریات اور مقاصد میں بعدالمشرقین ہے۔بعض کے جملے متنازع ٹھرے ہیں۔ یہ اتحاد ملک کے اندر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی ، شفاف انتخابات کی درست طور بات کرتی ۔ مگرا نہوں نے ملک کو ہمسایہ مملک سے درپیش مسائل و مشکلات کو حقیقت کی نظر سے بیان نہیں کیا ہے ۔ آئے روز سرحد پار بھارت اور افغانستان کی طرف سے حملے ہوتے ہیں ، سپاہی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔دہشت گردی کے طرح طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پوری دنیا پر عیاں ہے کہ افغانستان نے اپنے اندر پاکستان مخالف مذہبی ، نسلی و لسانی گرو ہ پال رکھے ہیں۔ جمعہ15جنوری2021ء کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنڑ کے علاقے شنکرئی میں ٹی ٹی پی کے دو اہم کمانڈر نور گل جو مسلم یار مومند کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے، اور رشید عرف ماماسڑک کنارے نصب بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ دونوں جماعت الاحرار کے لوگ تھے ۔ اول الذکر کے پاس تنظیم کے مالی امور کی ذمہ داری تھی ۔دوسرا نائب امیر تھا۔ پچھلے سال اگست میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار نے ٹی ٹی پی کے ساتھ انضمام کرلیا تھا۔ ایک کمانڈر وحید گل کے زخمی ہ ہونے کی اطلاع ہے۔ یہ گروہ، داعش اور بلوچ شدت پسند تنظیمیں افغانستان میں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔ بلکہ کابل نے تو پشتون علاقوں میں نئی قوم پرست جماعت متعارف کرائی ہے ۔پی ڈی ایم کے اندر بعض جماعتیں کابل میں بھار ت کے اثر و رسوخ کی حامی ہیں۔جو نہیں چا ہتیںکہ امن کی ایسی صورت بنے کہ جس کے نتیجے میںبعد امریکی و نیٹو فورسز کی انخلائ،بھارت اور اس کے خفیہ ادارے کی بے دخلی ہو۔ البتہ توجہ کے لائق یہ پہلو بھی ہے کہ کیوں ملک کی بڑی جماعتیں علی الخصوص مسلم لیگ نواز ، جمعیت علماء اسلام اور پیپلز پارٹی ان اہم و حساس معاملات میں حکومت اور سیکورٹی اداروں سے دوری پر جاچکی ہیں ۔ یہ صورت انتشار ، بد مزگی ،ا بہامات،مشکوک اور بد اعتمادی کا موجب بنی ہے ۔ قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی ۔ حدود و اختیارات سے تجاوز کی بجائے اس کی پاسداری ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔