اہلِ صحافت
شیئر کریں
صحافی کو ہمیشہ باسی روٹی اور تازہ سفر درپیش رہتا ہے۔ اسلام آباد کا سہ روزہ قیام غیر معمولی حالات کی تفہیم میں نہایت معاون رہا۔ سی پی این ای کے پاکستان میڈیا کنونشن نے مالکان ومدیران کے کان کھڑے کیے۔ اخبارات وجرائد جن مصائب کے شکار ہیں، مدیران اس کا سامنا کرنے کے لیے کمربستہ ہوچکے۔ مگر اُنہیں ادراک ہے کہ نیا سفر بجائے خود صبر آزما ہے۔ میڈیا کی صنعت بحران در بحران سے دوچار ہے۔ اخباری مالکان کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس کچھ ہاتھوں میں یرغمال بن گئی۔اپنے آئین کے محور سے نکل کر کچھ اشتہاراتی ایجنسیوں کے ہاتھ کی چھڑی، تالاب کی مچھلی اور جیب کی گھڑی بن گئی تو سی پی این ای نے جھرجھری لی اور ققنس کی مانند اپنی راکھ سے زندگی پیدا کی۔ ان اُس کی حرکت ، حرارت اور جرأت کچھ عناصر کے منہ کا ذائقہ خراب کرتی ہے۔ اُنہیں گراں گزرتا ہے کہ یہ تنظیم اُن کے رہینِ منت کیوں نہیں ، اپنی زندگی آپ کرنے میں کیوں جُتی رہتی ہے۔ یہ بدبو دار عناصر فطرت کی بنیادی روح سے واقف نہیں کہ جب آزادی کا سرشار کرنے والا لمحہ کسی پر اُترتا ہے تو خوف نام کی کوئی شے موثر نہیں رہتی۔آخری کتابِ ہدایت نے زندگی کا اُصول واضح کیا :
وَاَمَّا مَا یَننفعُ النَّاسَ فَیَمکُثُ فیِ الارض
(لوگوں کو نفع دینے والی چیز زمین میں ٹہری رہتی ہے)
وہ ادارے اور لوگ جو عمومی نفع کے بجائے چند لوگوں کے لیے مفادات کا بہاؤ پیدا کرتے ہیں، اُنہیں بآلاخر تباہ ہونا ہوتا ہے۔ کائنات کی پوری بُنت میں یہ اُصول چمکتا، دمکتا اپنے جلوے بکھیرتا ہے۔ اگر زندگی اس اُصول پر بسر نہ ہو تو کشاکش جنم لیتی ہے اور پھر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کو دفع کرنے کا اُصول متحرک ہو جاتا ہے۔ اے پی این ایس سمٹتے سمٹتے مارکیٹنگ کے چند حریص ہاتھوں میں آگئی ۔ افسوس ! کبھی یہ ادارہ آبرو مند بھی تھا۔ کبھی اشتہاراتی ایجنسیاں قطار لگا کر یہاں باریابی چاہتی تھیں ، کچھ بڑے اداروں نے اپنے ملازمین کے ذریعے اِسے چلانا چاہا تو عالم یہ ہے کہ اس کے عہدیدار جیلوں میں جاکر ایک اشتہاراتی ایجنسی کے سربراہ سے ڈانٹ کھایا کرتے ہیں۔ مگروہ بونا کیا شرمندہ ہوگا؟ جسے اپنے ادارے کے علاوہ اشتہاراتی ایجنسیوں کے تعمیراتی پراجیکٹس میں حصہ دار بھی رہنا ہو، وہ بیٹاکیا عزت پائے گا جس کے باپ نے بھی عزت کے بدلے دولت کا انتخاب کر لیا ہو۔ اخبارات وجرائد ، نیوز ایجنسیوں اور ڈائجسٹوں کے اس کسمپرسی کے ماحول میں ان کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی اور یہ تیار بیٹھے ہیں کہ مطبوعہ صنعت جہاں مرتی ہے مرے، آزاد�ئ اظہار کا نغمہ جس گلے میں گھٹتا ہے گھٹے، سربلند قلم جہاں جھکتے ہیں جھکیں، بس اُن کی دیہاڑیاں لگی رہیں۔ اُنہیں جیل سے فون آتے رہیں اور اُن کی دوسری تنخواہ اُنہیں بروقت ملتی رہے۔ ایسے لوگوں کو بآلاخر رسوا ہونا ہے۔ یہ ظاہری آنکھوں سے بڑھتے مگر دراصل گَھٹتے اور گُھٹتے رہتے ہیں، مرزا یاس یگانہ چنگیزی بھی کہاں یاد آئے:
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا ہوجائے گا
صحافت کے اس پیشِ منظر، پسِ منظراور تہہِ منظر میں سی پی این ای نے اُمید کا ایک دیا روشن کردیا۔ اسلام آباد کے چند صحافیوں نے خوشگوار حیرت سے اس سرگرمی کو ایک نئی زندگی کی تلاش سے تعبیر کیا۔ پاکستان میڈیا کنونشن کے مختلف ادوارِ گفتگو میں صحافت کو درپیش تقریباً تمام سوالات زیرِ بحث آتے رہے۔ دانشور اپنی اپنی بصیرت سے اس کے جواب دیتے اور مدیرانِ اخبارات کے لیے سامانِ فکر پیدا کرتے رہے۔ صحافت منقلب ہورہی ہے۔ اور اس کے ذرائع تیزرفتار ٹیکنالوجی سے روز بروز تبدیل ہورہے ہیں۔ ایسے میں مطبوعہ صحافت کی بقا ان ذرائع سے ایک مناسبت پیدا کرنے میں ہے۔ یہ نکتہ خوب خوب ذہن نشین کرایا گیا۔ مگر اس پر ایک جوابی موقف بھی تھا۔ جس کی بازگشت بھی سنی جاتی رہی۔ تاریخ اپنے محفوظات میں مطبوعہ حالت سے ہی آبرو مندرہتی ہے۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ اپنی جتنی بھی شکلیں تبدیل کر لیں ، اس کی تاریخ بھی اسی مطبوعہ صحافت میں مرتب ہوگی۔ امریکا نے آزادی کے بعد جب اپنے ہاں یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو1096ء میں قائم ہونے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کا جائزہ لینے کے لیے ایک وفد برطانیا بھیجا۔ وفد نے آکسفورڈ کی عمارت کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ اس سے اچھی یونیورسٹی ہم چند ماہ میں قائم کرلیں گے۔ آکسفورڈ کے ذمہ داران نے کہا کہ بالکل درست، آپ شاید اس سے بھی شاندار عمارت قائم کرلیں، مگر آکسفورڈ کی تاریخ کہاں سے لائیں گے؟ پاکستانی صحافت کو جب بھی اپنے نسب کے سوال کا سامنا ہوگا، آزادئ اظہار کی جدوجہد سے جب کبھی کوئی رومان پرور تعلق قائم کرنے کا مسئلہ درپیش ہوگا ،تو یہی مطبوعہ صحافت ان سوالات کی دھوپ میں سائبان فراہم کرے گی۔
ابھی مگر ایک اور مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستانی صحافت پر چھوٹے ، بونے اور بوزنے قابض ہوچکے۔ اس کے نمائندہ اداروں کو حقیقی ماہرینِ ابلاغیات کی شناخت درکار ہے۔ایسے لوگوں نے اخبارات کو وزن سے تولا ہے۔ اور اسے مارکیٹ کی ایک جنس بناد یا ہے۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخبار کا مالک مدیرکسی کمپنی کے سی ای او کی طرح لیا جائے۔ چند اخباری اداروں نے اپنے مارکیٹنگ منیجرز کے ذریعے اس نوع کی صحافت نما کثافت پیدا کردی ہے جس کے بعد اشتہاراتی اداروں سے لے کر حکومت کے کارپردازوں تک سب اخبارات اور ابلاغیات کے دفاتر کو بازار میں کھلنے والی دُکانوں پر قیاس کرنے لگے ہیں۔ یہ محض ایک کاروبار تو نہیں۔ پھر اس کے کاروبار کو عام کاروبار سے کسی طور منسلک کرکے نفع ونقصان کی میزان پر تولنا مناسب نہ ہوگا۔ اس روش نے ہی حکمرانوں کو یہ ہمت دی کہ وہ صحافت کو دیگر کاروباری صنعتوں سے منسلک کرکے اپنے اپنے کاروباری فارمولوں کو وضع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ یہ رویہ بھی برتنے کو تیار نہیں جو خود اُن کے بیان کردہ الفاظ میں دیگر صنعتوں کے ساتھ وہ روا رکھتے ہیں۔ سیمنٹ سے لے کر سریے تک اور چینی سے لے کر روئی تک جب کبھی کسی صنعت پر بحران آتا ہے تو حکومتیں اُن کی چارہ گری کرنے کے لیے دستِ تعاون دراز کرتی ہیں، مگر یہاں ایک تجاہل، تساہل اور تغافل کا رویہ ہے۔ سی پی این ای نے نہایت ہوشمندی سے اس مسئلے کو اس طرح اجاگر کیا کہ توازن برقرار رہے۔ آزادئ صحافت کی آبرو کھوٹی نہ ہو، آخر الفاظ اینٹ کے کنکر نہیں ہوتے۔ فقرے روئی کے گالے تو نہیں ہوتے۔ خبریں منڈی کی جنس تو نہیں ہوتیں۔ اظہار کا جذبہ دودھ کا ڈبہ تو نہیں ہوتا۔ صحافت اگر کوئی صنعت ہے تو اس کی پیداوارمارکیٹ کی دیگر اجناس کی طرح کوئی عام سی تو نہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب اس صنعت کو سمجھنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جائے گی۔ اوپرے اوپرے ذہنی مظاہرے اسکرین کی بدولت ضروردِکھتے ہیں ،مگر سائنسی مطالعے میں اب یہ نکتہ روشن ہو چکا کہ سوچنے والا دماغ پڑھنے والے کے پاس ہوتا ہے۔ گہرائی وگیرائی کی صلاحیت کاغذ کے لمس سے پیدا ہوتی ہے۔جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں ایک بار پھر بچوں کی تربیت کے پرانے طریقوں پر لوٹنے کی فکر کی جارہی ہے۔اُنہیں کتاب اور کاغذ کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔مگر پاکستان میں حکمرانوں کی دانش ابھی موبائل فون پر اسکرین کی جلتی بجھتی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ مدیران کو اندازا ہورہا ہے کہ اُنہیں الفاظ کی حرمت کے لیے ابھی ایک طویل سفردرپیش ہے۔ چنانچہ سی پی این ای کے مدیران بھی زندگی کی گاتی گنگناتی شاہراؤں پر بے نیاز سرگرم سفر ہیں، عازم منزل ہیں۔اہلِ صحافت نے حکومتوں کے آتے جاتے خانہ بدوش قافلوں میں اپنی زندگی کا سامان کیا اور الفاظ سے حرمت کا راستا بھی نہ ٹوٹنے دیا۔ ایسے میں کچھ اخبارنویسوں کو اُن کے اندر کے تاجروں نے مارڈالا، کچھ مالکان کی حرص کے آگے پورا ملک بھی کم پڑ گیا۔ مارکیٹنگ میں پرسنٹیج کی دلالی سے اخبارات کے نمائندہ اداروں کے آبرومندانہ مناصب پر قبضہ بھی کر لیا تو کیا ہوا؟جرأت مند صحافت اپنا راستا خود بنائے گی۔ سی پی این ای کے پاکستان میڈیا کنونشن سے پیدا ہونے والا یہ اعتماد صحافت کے لیے کوئی کم اثاثہ تو نہیں۔