میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پنڈی کا نجومی بمقابلہ آرمیگڈون کا نظریہ

پنڈی کا نجومی بمقابلہ آرمیگڈون کا نظریہ

منتظم
بدھ, ۲۰ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

رائو عمران سلیمان
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں زیادہ تر آرمیگڈون کے نظریئے پر ہی دنیا کو پرکھا جارہاہے ، سوال یہ ہے کہ آرمیگڈون کیا ہے ؟۔آرمیگڈون دنیا کے خاتمے کو کہا جاتاہے ایک ایسی جنگ جو دنیا بھر کے ملکوں کو ملیامیٹ کردے گی ۔مسیحوں کے مطابق پوری دنیا میں خون ہی خون ہوگا جو انسانوں اور جانوروں کی تباہ کاریوں کا ہوگا،جن مغربی ممالک میں آرمیگڈون کا نظریہ چلتاہے وہاں کے بہت سے سیاسی علم ونجوم کے لوگ اسی نظریئے کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں ،اور ان کے عروج زوال کی پیشگوئی کرتے ہوئے مغربی میڈیا میں خوب شہرت کمارہے ہیں مگر درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ مسیحوں کے یہ عقائد جھوٹ اور اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ دنیا میں خوب ترقی کرنے والے یہ لوگ علم ونجوم کے پرفریب دھوکوں اور باتوں میں اس قدر گھر جاتے ہیں کہ کوئی ان کو دیکھ کر یہ اندازہ بھی نہیںکرسکتاہے کہ کیا یہ ہی وہ لوگ ہیں جو اس وقت چاندپر نئی دنیا بسانے کی آخری کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگران تمام تر پیش گوئیوں کے مقابلے میں پاکستان بھی اپنا منفرد مقام رکھتاہے بھلے ہی یہاں آرمیگڈون کا نظریہ نہیں چلتا مگر شیخ رشید کی پیش گوئی اور منظور وسان کے خوابوں کے خوب چرچے ہیں۔
یہ تو قوم اچھی طرح جان ہی چکی ہوگی کہ پنڈی کی لال حویلی کے شیخ رشیدکی پیشگوئیاں کبھی بھولے سے بھی سچ ثابت نہ ہوسکی ہیں مگر ہمارا میڈیا ان کا خوب دیوانا ہے کئی اینکر پرسنوں کو میٹھی میٹھی جھاڑ پلانے والے شیخ رشیخ صاحب اپنی نامکمل پشیگوئیوں کی بدولت تمام نیوزچینلوں کے انوکھے لاڈلے بنے ہوئے ہیں بس اس دن کی بریکنگ نیوز کا انتظار ہے کہ جس روز وہ کہیں گے کہ آج رات ایک بجے کے بعد سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکے گا اور یہ ہی برییکنگ تمام نیوز چینلوں پر چل رہی ہوگی شیخ رشید نے پاکستانی سیاست کو آرمیگڈون سے بھی بھیانک قرار دے رکھا ہے یعنی اگلے دو ماہ کے اندر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ سب جیل کے اندر ہونگے ہرطرف افراتفری ہوگی اور سب کچھ ملیامیٹ ہی ہوجائے گا”ان کی گفتگو سننے کے بعد بعض بچوں کے والدین یہ ہی سمجھتے ہونگے کہ جب اتنے ہی حالات خراب ہونے والے ہیں تو پھر ہم اپنے بچوں کو اگلے دوماہ تک اسکول ہی نہیں بھیجیں گے کیا پتہ کب شیخ صاحب کی باتیں سچ ہوجائیں ۔شیخ رشید کو دیکھ کر کبھی تو ایسا لگتاہے کہ یہ ہی وہ سیاستدان ہے جس کے ہاتھوں میں اس ملک کے سیاستدانوں کی کنڈلیاں بند پڑی ہیں ،جب مٹھی کھولی اور پیش گوئی کرڈالی کے فلاں موصوف مارچ سے پہلے ہی مارچ کرجائینگے یا پھر بقرعید سے پہلے ہی ان کی قربانی ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ ۔
مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس ملک کے بے شمار سیاستدان اس قسم کی نیچر کے لوگ ہیں کہ جن کی گفتگو کو ایک لمحہ بھی سننے کو دل گوارا نہیں کرتا مگر کیا کریں نیوزچینلوں کے بڑے بڑے دانشوروںکو جب ہم ایسے سیاستدانوں سے پاکستان کی قسمت کے متعلق پوچھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسے میں دل کے پھپھولے ہی جل اٹھتے ہیں۔شیخ صاحب اگر برا نہ مانیں توایک چھوٹی سی کہانی سناتا چلو "وہ بڑھاپے کی منزلوں کو چھورہا تھا مگر اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی اس لیے کہ اسے ایک آئیڈیل رفیقہ حیات کی تلاش تھی ،،لوگوں نے پوچھا کیا اسے زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو اس کی آئیڈیل رفیقہ حیات بن سکتی ہو،اس نے جواب دیا کہ ایک خاتون ملی تو تھی مگر مشکل یہ تھی وہ بھی اپنے لیے آئیڈیل شوہر تلاش کررہی اوربدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔”دوستوں یہ بات یقینا شیخ صاحب کی تمام تر حالات زندگی کے عین مطابق بیٹھتی ہے۔ ماضی میں یہ صاحب جس کے ساتھ کھڑے ہوئے وہاں وزارتوں کے بھی خوب مزے اڑاے اور جب ان کے زوال کا وقت آیا تو کسی اور جماعت میں جاپہنچے یعنی اس ملک میں ایسے سیاستدانوں کی ہرگز کمی نہیں ہے کہ جن کو ہر حال میں اقتدار ہی چاہیے ہوتاہے عمران خان کی بڑھتی ہوئی شہرت میں ان کاساتھ دینا بھی اسی نظریئے کی عکاسی کرتاہے ورنہ قوم ان دنوں کو بھول بھی نہیں سکتی جب شیخ رشید عمران خان کو نیوز چینلوں میں بیٹھ کریہ کہاکرتے تھے ۔ـ” عمران خان کے پلے ہے ہی کیا! یہ تو انہوںنے ایک سیٹ لے کر اتنی قیامت کھڑی کی ہوئی ہے ورنہ ان کاتو ایک کونسلر بھی سارے ملک میں موجود نہیں ” ۔ اور جب ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے اسمبلی میںایک سیٹ سے زیادہ سیٹیں بنالی ہیں تو شیخ صاحب کی وہ سیاسی سوچ جسے وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کی دی ہوئی سیاسی سوچ ہے یعنی وہ پیدائشی ہی خدادصلاحتیوں کے مالک ہیں ۔فوراً ہی جاکر عمران خان سے جاملتی ہے ،یعنی نعوز بااللہ کیا یہ اللہ کہتا ہے کہ جس کا زوال ہو اسے چھوڑ دو اور ہمیشہ چڑھتے سور ج کو سلام پیش کرو۔
ماضی میںخود عمران خان بھی شیخ رشید کو جھوٹا اور مکار سیاستدان کہتے ر ہے اورایک جگہ تووہ ہاتھ اٹھاکر شیخ صاحب کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ اگر شیخ رشید کامیاب سیاستدان ہیں تو اللہ مجھے شیخ رشید جیسا کامیاب سیاستدان کبھی نہ کرے۔ دوستوںانسانی معاملات کو سمجھنے کے لیے بہترین طریقہ کار یہ ہی ہے کہ ایک آدمی جس سے ہم نے کوئی امید قائم کررکھی تھی اور وہ شخص اس میں پورا نہیں اترتا! ہم نے ایک آدمی کو موقع فہم سمجھا اور رمزشناس جانامگر اس کے ساتھ رہ کر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جھوٹا اور بے اصول آدمی ہے! ۔گائے دودھ دیتی ہے یا آج کتا بھونکے گا یہ ہر کوئی جانتاہے مگر جب اسے شیخ رشید جیسے لوگ اس طرح بیان کریں کہ مارچ میں گائے دود ھ نہیں دیگی یا آج کے بعد کتا نہیں بھونکے گا ایک غیر معقول سے بات ہوگی افسوس اس بات پر ہے کہ ایسے لوگوںکاکاروبار صرف اور صرف ہماری میڈیا کی وجہ سے چل نکلا ہے میں ساری میڈیا پررہرزہ سرائی نہیں کررہا ہاں جو ان کی جھوٹی افواہوں کو پرموٹ کرتے ہیں میرا اشارہ ان ہی کی طرف ہے اور اس میں جو لوگ شامل ہیں وہ سمجھ بھی گئے ہونگے ۔یہ ہی وہ میڈیاکے نام نہاد مہربان ہیں جنھوں نے شیخ صاحب کا منجن اور چورن مکس کرکے بیچنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ معاشرے کو ایسے بے ڈھنگے ماحول سے نکالنے کے لیے سب سے پہلے انہیں ذہنی حیثیت سے باشعور بناناہوگا ۔عوام کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہوگا ہم اس قوم میں شعور کی روشنی جلائے بغیر انہیں شیخ رشید کی پیشن گوئیوں اور منظوروسان کے خوابوں سے نہیں نکال سکتے ۔اور یہ ہماری حد سے زیادہ آزاد میڈیاکو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کس لحاظ سے عوامی مسائل کی صحافت کررہے ہیں، ایک گھڑی وہ خود سے بھی سوا ل کریں کہ کیا وہ حقائق کی بنیاد پراپنی رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں یا پھر خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کے سہارے سے ایسے مقام پر چل نکلیں ہیں کہ جن کا اس ملک کے روشن مستقبل سے دور دور تک واسطہ نہیں رہاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں