نواز شریف کاعدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کااعلان
شیئر کریں
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قانون کی بالادستی کے لیے مہم کا آغاز کرنے کے اعلان کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے سربراہ کا مقصد انتخابات میں کامیابی کے بعد ‘انتخابی اصلاحات کرانا ہے تاکہ اداروں کی آئینی حدود کا تعین کیا جا سکے۔گزشتہ روز نااہل قرار دئے گئے وزیراعظم نوازشریف اپنی صاحبزادی اور نواسی کے ہمراہ لندن سے پاکستان پہنچے تھے اور انھوں نے عدلیہ کے خلاف اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے باقاعدہ تحریک چلانے کااعلان کیاتھا،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویزرشید نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ‘نوازشریف کی جانب سے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے مہم کی شروعات پر مبنی بیان کا مطلب یہ نہیں کہ پارٹی کسی لانگ مارچ یا دھرنے کی تیاری کررہی ہے، نواز شریف کے اس بیان کو بڑے پس منظر میں دیکھا جائے’۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) رہنما عوام میں جائیں گے اور آئین میں انتخابی اصلاحات کے ذریعے ریاستی اداروں کے کردار کی حدود بندی کریں گے تاکہ مستقبل میں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کیے بغیر گھر نہ جا سکے’۔ ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ کے سینیٹر نے کہا کہ ‘عام انتخابات کے لیے 45 دن سیاسی مہم کے لیے بہت ہیں، ہم سیاسی ڈھانچہ مضبوط ہونے کی وجہ سے عوام تک اپنے پیغام کے ساتھ با آسانی پہنچ سکیں گے’۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں ہماری یعنی پاکستان مسلم لیگ ن کی عوامی رابطہ مہم کا طریقہ عمران خان جیسا نہیں ہوگا،انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ عوامی رابطہ مہم کافیصلہ رواں ہفتے میں ممکن ہے۔آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘ہم دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر ان کے تعاون کے ساتھ قانون میں تبدیلی لائیں گی، جس کی بنیاد پرقانون منتخب وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوتا ہے’۔
پاکستان کے سیاسی بحران پر گفتگو کو ہمارے ملک میں حکومت مخالف عناصر، دانشور طبقہ، میڈیا اور رائے عامہ تشکیل دینے والے اداروں کامشغلہ تصور کیاجاتاہے،حکمران طبقہ کبھی بھی ان کی رائے سے متفق نہیں ہوتا۔ حکمراں کوئی بھی ہو اس کی دلیل یہی ہوتی ہے کہ حکومت کی مخالفت میں ایک مخصوص طبقہ بلاوجہ مایوسی پھیلاتا ہے۔لیکن فی الوقت جو سیاسی بحران ہے وہ محض حکومت مخالف طبقے تک محدود نہیں، بلکہ بحران کی کہانی خود حکمران طبقہ کے اندر سے بھی سنائی دے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس پر بنیادی نوعیت کے سوالات ابھر رہے ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کاشمار نواز شریف کے تابعدار سیاستدانوں میں ہوتاہے انھوںنے ایک حالیہ بیان میں چند اہم نکات اٹھائے ہیں۔ اول یہ کہ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گریٹر پلان بنتا دیکھ رہا ہوں اور باخبر ہوںجس کے تحت لوگ اسمبلیوں سے مستعفی ہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے صورتحال پر مایوسی کااظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اتنا مایوس نہیں تھا جتنا حالیہ بحران نے مجھے مایوس کردیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے اور یہ چیزیں نارمل نہیں ہیں غیر فطری ہیں۔انھوں نے متنبہ کیا کہ صورتحال کافی غیر یقینی اور داخلی خطرات زیادہ سنگین ہیں اور ضروری نہیں کہ نظام ہی ڈی ریل ہو، کچھ ہونے والا ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی مزید سوالوں سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ معلوم نہیںکہ یہ سب کچھ کون کرا رہا ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ باتیں پوچھی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔سردار ایاز صادق کوبے خبر آدمی نہیں کہاجاسکتا، اقتدار کی غلام گردشوں میں ان کی ایک حیثیت اور نواز شریف کے تابعدار ہونے کی وجہ سے حکمران ان سے بہت کم باتیں ہی چھپاتے ہیں اس لیے اگر انھوں نے یہ باتیں کی ہیں تو اس کے پیچھے کچھ تو لازمی ہوگا۔شنید یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی صدارت میں گزشتہ دنوں لندن میں ہونیوالے اجلاس میں سردار ایاز صادق کے بیان پر شدید ناپسندیدگی کااظہار کیا گیااوروزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ان سے نالاں ہیں مگر جو کچھ ایاز صادق نے کہہ دیا ہے وہ اپنے اندر ایک بڑے بحران کے تاثر کو طاقت فراہم کر رہا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر کہا جارہا ہے جب ملک 2018کے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس سے قبل سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کرچکے ہیںاوران کے بقول سیاسی نظام، جمہوریت، پارلیمنٹ سمیت پوری سیاست کمزور ہوتی جارہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ سردار ایاز صادق، رضاربانی سمیت بہت سے لوگ جن خدشات کا اظہار کررہے ہیں اس میں سیاسی نظام، سیاسی قیادت، سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی حکومت کا خود کتنا حصہ ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ سارا غصہ یا خدشہ خارجی عوامل سے جوڑا جارہا ہے۔ حکمراں پارٹی اس حوالے سے اپناداخلی تجزیہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتی اور یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ خود اہل سیاست سے بے شمار غلطیاں ہوئی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اپنی غلطیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیںہیں اور ہمارا سیاسی نظام بگاڑ کا شکار ہے تو کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوگا جو حکمرانوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔سردار ایاز صادق کو حکومت کے لیے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ حکومت، فوج اور عدلیہ میں محاذآرائی کو پیدا کرنے میں خود ان کی اپنی حکومت کا بڑا ہاتھ ہے۔جو لب ولہجہ نواز شریف نے اختیار کیا ہوا ہے اس سے کیسے سیاسی استحکام آسکے گا؟سردار ایاز صادق جس پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں اس کے سابق قائد ایوان اور حکومتی جماعت کے سربراہ نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں نے اس پارلیمنٹ کی جو بے توقیری کی ہے اس پر خود اسپیکر نے بھی اپنی زبان کی تالہ بندی کررکھی ہے۔پاکستان کو سیاسی بحران یا انتشار سے بچانا ہے تو اس کا واحد حل قانون کی حکمرانی سے جڑا ہوا ہے۔ ہم طبقاتی بنیادوں پر نظام کو چلا کر ایک مخصوص طبقہ کی سیاست کو تقویت دے رہے ہیںاور یہ رویہ پورے نظام کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ مسئلہ محض حکومت، سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی ٹکرائو کا نہیں بلکہ مظلو م عوام کا بھی ایک مقدمہ ہے جو حکمران طبقہ کے خلاف ہے۔ اس وقت طاقت کے فریقوںمیں جو لڑائی جارہی ہے اس میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارا داخلی بحران ہے اس کی وجہ قومی معاملات، ریاستی مفادات کے مقابلے میں ذاتیات اور خاندان پر مبنی سیاست نے ہمارے اداروں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت یا طاقتور طبقات اداروں کو مستحکم بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگرپاکستان کو آگے بڑھنا ہے توحکمرانوں کو اپنے موجودہ طرز عمل کو بدلنا ہوگا،اور ملک کی عدلیہ کومضبوط کرنا ہوگا،ا ورعدلیہ کو مضبوط اور باوقار بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر چوں وچرا کے بغیر عمل کیا جائے اور اس پر کسی بھی طرح کی حرف زنی سے گریز کاراستہ اختیار کیا جائے ، نواز شریف کو یہ احساس ہوجانا چاہئے کہ ان کی جانب سے مجھے کیوں نکالا کی گردان کو عوام کے وسیع طبقے کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی یہی نہیں بلکہ ان کی یہ گردان ان کا تمسخر اڑانے کے لیے استعمال ہونے لگی،اگر نواز شریف اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے ایک دفعہ پھر عدلیہ کے خلاف کوئی نیا محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں تو اس سے خود ان کوا ور ان کی پارٹی کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک ملک کے موجودہ نظام بلکہ طریقہ حکمرانی کاتعلق ہے تواس حوالے سے کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ یہ نظام اور طریقہ حکمرانی اس ملک کے عوام کی ضروریات پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے ، اس نظام نے حکمرانوں کو بے پایاں اختیارا ت کامالک بناکر عوام کو بے بس اور بے اختیار کردیا ہے لیکن اس نظام کو تبدیل کرنے اور عوام کو حقیقی معنوں میں بااختیار بناکر حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہی پر مجبور کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک بڑے دبائو کی سیاست پیدا کرنا ہوگا اس کے لیے نئے طور طریقے اختیار کرنے ہونگے۔سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشیوںکی سیاست سے باہر نکل کر قومی مفادات کو تحفظ دے کر اس ریاستی نظام کی فکر کرناہوگی جو حقیقی معنوں میں ان کی توجہ چاہتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہمارے حکمران اور حزب اختلاف کی قیادت اس بات کو محسوس کرے کہ وہ اس ملک کی قیادت اورحزب اختلاف کا حقیقی کردار ادا نہیںکررہے ہیں۔ یہ نظام انتخابات کے نتیجے میں نئی قیادت کے سامنے آنے سے تبدیل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات بھی ہوں لیکن اس سے بڑھ کر ایک بڑے سیاسی کردار اور سیاسی فریم ورک کی طرف پیش قدمی کی جائے۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاملات پیچیدہ ضرور ہیں ، لیکن ان کا حل ناممکن نہیں۔اصل مسئلہ صورتحال کی شدت کو تسلیم کرنااورغلطیوں کا اعتراف کرکے اس کا متبادل تلاش کرنا، معقول حکمت عملیوں کو ترتیب دینا، آگے بڑھنے کے لیے تمام فریقوں سے مشاورت کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا،اداروں کو متنازعہ بنانے کے عمل سے گریز کرنا ہوگا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنا ہوگا، عوامی مفادات کو طاقت کی اس لڑائی سے جوڑ پیدا کرنا ہوگا، اپنی ذاتی مرضی، خواہش اور انا کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے پر غور ہی نہیں کرناہوگابلکہ اس سمت پیش قدمی کرناہوگی لیکن جب ہم اپنی سیاسی قیادت پر نظر ڈالتے ہیں تو بظاہریہ ناممکن نظر آتا ہے،لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے تاہم یہ اسی وقت ہوسکتاہے جب عوام کی خاموش اکثریت جو یہ سوچ کر کہ ان کی رائے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی انتخابات کے موقع پر باہر نکلیں اور ہر طرح کے دبائو اور خوف کو بالائے طاق رکھ کر اس ملک کی بقا اورترقی کی خاطر اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرکے ایسے سب سے کم خراب اور کرپٹ امیدوار کوووٹ دے کر کامیاب بنانے کی کوشش کریں جس کو اس سے قبل آزمایا نہ گیا ہو،ایسا کرنے سے امور مملکت پر عوام کی گرفت مضبوط ہوگی اور ہر مرتبہ نیا چہرہ سجاکر ووٹ مانگ کر اپنی تجوری بھرنے والوں کی دکانیں خود بخود بند ہوجائیں گی اور اس طرح نئے نظام کا آغاز ہوجائے گا۔