میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شام میں مظالم

شام میں مظالم

منتظم
منگل, ۲۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

syed-amir-najeeb

سید عامر نجیب
فرقہ وارانہ تعصبات انسانوں کو کس قدر سنگدل اور بے رحم بنا دیتے ہیں اس کا اندازہ شام میں جاری ظلم و بر بریت اور سفاکیت کے بد ترین مظاہرے سے کیا جا سکتا ہے ، گزشتہ چار سالوں میں بشار الاسد کی غیر قانونی اور اقلیتی فرقے کی حکومت نے اپنے تحفظ کے لیے اکثریتی آبادی کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے ۔ جدید دنیا میں جو مظالم شام کے معصوم شہریوں پر ڈھائے گئے ہیں وہ حیران کن ہیں، اقوام متحدہ اور اس کے حقوق انسانی کے چارٹر کے ہوتے ہوئے ، آزادی کے علمبردار میڈیا کے ہوتے ہوئے ، 57 اسلامی حکومتوں کی موجودگی میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں دنیا بھر میں ہزاروں این جی اوز اور ان کے لاکھوں ورکرز کے ہوتے ہوئے آگ اور خون کا جو کھیل شام میں کھیلا جا رہا ہے اس نے اسلامی اخوت کے نعروں ، اسلامی حکومتوں کی اسلام پسندی، مغربی ملکوں کی انسان دوستی ، این جی اوز کے حقوق انسانی کے دعووں اور میڈیا کی دیانتداری پر اعتماد ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔
ظلم کے وہ مناظر جو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچ رہے ہیں ایک نارمل آدمی انھیں دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ لوگ صرف ادھوری ویڈیوز ہی دیکھ پا رہے ہیں نہ ان مناظر کو آنکھوں سے دیکھنے کی ہمت ہے اور نہ ان مظلوموں کی آہ و زاریوں کو کانوں میں سننے کی سکت ہے۔ جن مظالم کو دیکھا نہیں جا رہا اُن مظالم کو ڈھانے والوں کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے ۔ وہ انسان کہلائے جانے کے مستحق ہیں ؟ وہ انسان ہیں یا انسان نما وحشی درندے ؟ انکے سینوں میں دل نہیں پتھر ہے جنھیں بچوں کی معصومیت متاثر نہیں کرتی جنھیں بزرگوں کی بزرگی اور عورتوں کی صنفی کمزوری کا قطعی کوئی احساس نہیں ۔ ٹھیک ہے کہ جنگ ہے، ایسی جنگ جو شام کے بے رحم حکمرانوں نے خود اپنے عوام پر مسلط کی ہے، اس حکومت اور اس اقتدار کی اخلاقی حیثیت کیا ہوگی جس کو بر قرار رکھنے کے لیے اپنے عوام کی نسل کشی کی جائے ؟ جنگ کا بھی تو کوئی ضابطہ اخلاق ہوتا ہے ۔رہائشی علاقوں پر بمباری ، اسکولوں ، ہسپتالوں اور پبلک مقامات پر حملے ، بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کا بے دردی سے قتل عام ، سفاک فاتحین کی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ بد سلوکی ، باحیا عورتیں عزت بچانے کے لیے خودکشی پر مجبور ہو رہی ہیں ۔ اپنے بچوں کی لاشیں گود میں اُٹھائے ماں باپ اور ان پر کیا گزر رہی ہوگی جنکے بچے زخمی ہیں اور انھیں علاج معالجے کی سہولیات بھی میسر نہیں ۔
اپنے عوام کو فتح کرنے والے انھیں انخلاءکا راستہ دینے کے لیے بھی تیا رنہیں ۔ شام کے سرکاری فوجی جنھیں روس اور ایران کا مکمل ساتھ حاصل ہے ، ایرانی فورسز اور کمانڈرز بشار الاسد کی فوج کے شانہ بشانہ بلکہ ان سے بڑھ کر شام کے معصوم شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ ایرانی جرنیلوں کو حلب کے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو مار کر بھی سکون نہیں مل سکا۔ ایران کا سینئر جنرل جواد غفاری جسے نہتے شہریوں کا خون منہ کو لگ گیا ہے بحلب میں محصور تمام افراد کو اجتماعی طور پر قتل کے احکامات جا ری کر رہا ہے ۔ وہ حلب کے شہریوں کی نقل مکانی کا مخالف ہے اس کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی آڑ میں حکومت مخالف جنگجو بھی وہاں سے فرار ہو سکتے ہیں ۔
حلب جو ایک جیتا جاگتا شہر تھا کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے لڑنے والوں کو ختم کرنے کے لیے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے ۔ او آئی سی اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں سمیت دنیا کی کئی حکومتوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اعتدال پسند عوام کے واویلے اور احتجاج کا قطعی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ متاثرین جنگ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور ورکرز پر بھی پابندی لگائی گئی یا اپنی مرضی کی جگہوں پر مواقع فراہم کئے گئے ۔ جب تعصب ، نفرت ، خود پسندی اور سرکشی سر چڑھ کر بولنے لگیں تو انصاف کی آوازیں کتنی بے بس ہو جاتی ہیں شام کی صورتحال سے واضح ہے ۔ عراق اور افغانستان میں عوام کی آزادی کے نام پر شبخون مارنے والی اور وہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے والی قوتوں کی منافقت بھی بے نقاب ہوگئی ہے ۔ امریکا اور نیٹو فورسز اگر واقعی انسانی حقوق کی محافظ ہیں اور اقوام متحدہ کے حقوق انسانی چارٹر کی چوکیدار ہیں تو پھر انھیں شام میں انسانی حقوق کی پامالی اور جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھرتی کیوں نظر نہ آئیں کہ وہ بشار الاسد ، اُس کی فوج اور اس کے بیرونی معاون ریاستوں کو ان مظالم سے بزور قوت روک سکتے ۔
بے نقاب تو ہمارے ملک کا موم بتی مافیا ، سول سوسائٹی ، جراتمند لکھاری اور بے باک ٹی وی اینکرز بھی ہوئے جو رائی کا پہاڑ اور بات کا بتنگڑ بنا ڈالتے ہیں، ایشو کو نان ایشو اور نان ایشو کو ایشو بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، شام اور برما کے مسلمانوں کے لیے ان لوگوں کی بے حسی مجرمانہ ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے ،لیکن ہمارے لوکل میڈیا کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے کہ جب یہ ایشو بنانے پر آئے توملالہ پر ہونے والا قاتلانہ حملہ مارننگ شوز سے لے کر پرائم ٹائم میں نشر ہونے والی سیاسی ٹاک شوز تک میں موضوع بحث بنتا ہے، اخبارات کے صفحات کے صفحات کالے کردیے جاتے ہیں ،یہ موضوع ہر گھنٹے بعد کئی دن تک ہیڈ لائنز کی زینت بنتا ہے۔ لیکن شام اور برما کی ماﺅں ،بہنوں کی جانوں اور عزت پر بنی ہوئی ہے لیکن اس طبقے میں کتنوں کا ضمیر جاگا ہے ۔عوامی سطح پر شام کے مسلمانوں کے لیے لوگوں کے کیا جذبات ہیں ،اس کا اندازہ ہر باشعور آدمی سوشل میڈیا کے عمومی موضوع بحث سے لگا سکتا ہے ۔ہر دردمند دل رکھنے والا اپنے غم ، افسوس اور ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے کیا ملکی میڈیا عوامی امنگوں کی ترجمانی کا دعویداد نہیں ؟
مشرق وسطیٰ میں فرقہ واریت نے تباہی کا جو سامان کر رکھا ہے وہ پاکستان کے مسلمانوں اور پاکستان کی ریاست کے لیے اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے ۔ نفرتوں اور تعصبات کا گراف اگر حد سے تجاوز کر گیا تو ہمارے جان و مال ، عزت و آبرو ایک دوسرے سے غیر محفوظ ہونگے۔ ہمارا نشانہ پاکستان کے دشمن نہیں بلکہ ہم خو د ایک دوسرے کا نشانہ ہونگے۔ اور یاد رکھیں جرائم پیشہ لوگ ایسی سفاکیت اور بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے جتنا کہ فرقہ وارانہ تعصبات سے لبریز دل والے کرتے ہیں ۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خودکو ہر قسم کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے دور رکھیں ۔ تمام مکاتب فکر کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعصبات میں آ کر ملکی مفادات کو نقصان نہ پہنچنے دیں، اپنے ملک کے ساتھ وفا دار ر ہیں، اپنے پسندیدہ ملکوں اور ان کے حکمرانوں سے عقیدت رکھنا چاہیں تو رکھیں لیکن کسی ملک کے سیاسی ایجنڈے کو اپنے ملک میں داخل نہ کریں ۔ شام اور عراق تباہ ہو رہے ہیں، کھنڈرات اور قبروں پرحکمرانی پر آخر کس کو فائدہ ہے ؟؟
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں