کب سدھرے گا پاکستان اور اسکے سیاستدان
شیئر کریں
جب اپنے بھارتی ہم منصب سے انتہائی اہم ملاقات کریگا تو کشمیر یا دیگر امور کے بجائے دبئی کے راستے اپنے خاندان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروانے کی درخواست کریگا اور یہ بھی بتائے گا کہ ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔ ایک اور وزیرا عظم جب فوج کو اصرار کرتی ہے کہ اسکو نیوکلیر پروگرام سے متعلق بریفنگ دی جائے، جو کہ اسکا آئینی حق ہے، مگر جب آرمی ہیڈ کوارٹر کے آپریشن روم میں پہنچتی ہے تو امریکی سفیر کو بھی اپنے ہمراہ لیجاتی ہے۔ ایک آمر دنیا کے مسائل کو پاکستان میں درآمد کروا کر ہزاروں افراد کی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے۔ بھارت میں صدر کا عہدہ سیاست کی معراج سمجھا جاتا ہے، اگر وہ کسی پارٹی سے عمر بھر وابستہ رہا ہو۔ مگر اس عہدہ پر پہنچنے پر وہ نہ صرف سیاست کو خیر باد کہہ دیتا ہے بلکہ ایک سرپرست کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر کیا کیجئے مملکت خداداد میں ایک صدردو کشتیوں پر سوار ہوکر ملک کی صدارت اور ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی بھی کر تا ہے۔ اب اس طرح کا صدر کیسے عوام اور اداروں میں اپنا بھروسہ قائم کروا سکتا ہے۔ اسی طرح جب پاکستانی عدالت کے سربراہ کو لگتا ہے کہ بس وہی ملک کا نجات دہندہ ہے تو وہ آئے دن وزیراعظم کو سمن کرنے اسکی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہے۔ احتساب کے نام پر ملکی استحکام کو قربان کرنا پاکستانی عدالتوں سے کوئی سیکھے۔ سابق بھارتی صدر پرناب مکرجی ، جو میرے استاد بھی رہے ہیں، ایک بار بتا رہے تھے کہ ان کو بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم آخر کب گورننس کے ایشوز کو لیکر کام کرتا ہوگا؟ اقتدار میں آنے اور ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے فوراً بعد ہی پاکستانی وزیر اعظم سیاسی امور کو سلجھانے اور اپنی کرسی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ جس سے گورننس کے بجائے اس کا پورا وقت سیاسی امور کو سلجھانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔
اگر پاکستانی سیاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صرف تین وزراء اعظم نے چار سال کی مدت تک حکومت کی ہے۔ جن میں لیاقت علی خان (4سال 63دن)، یوسف رضا گیلانی (4سال 86دن) اور نواز شریف (4سال 53دن ) برسراقتدار رہے ہیں۔ دہلی میں میرے ایک سینئر کولیگ پارسا وینکٹیشور رائوکہتے تھے کہ انتخابات کے بعد پاکستانی عوام جلد ہی اپنے حکمرانوں سے اوب جاتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے مدت حکمرانی پانچ سال سے گھٹا کر تین سال کی جائے تاکہ حکومت کو پہلا سال آنے اور سمجھنے میں، دوسرا سال حکومت کرنے میں تیسرا سال سیاسی امور کو سلجھانے اور اگلے انتخاب کی تیاری میں صرف ہو۔ پاکستانی اداروں ، تھنک ٹینکوں و میڈیا کیلئے لازم ہے کہ تحقیق کرکے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کون سے عوامل ان کے پڑوسی بھارت کو ایک مستحکم اور پاکستان کو ایک ناپائیدار نظام کی طرف لے جانے کے ذمہ دار ہیں؟ پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیںکہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسابالکل نہیں ہے کہ بھارت کے سیاسی نظا م میں فوج یا سکیورٹی کا عمل دخل نہیں ہے۔ فیصلہ لیتے وقت ان کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مستحکم نظام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں اداروں کو ایک دوسرے کے اوپر بھروسہ ہے۔ فیصلہ سازی ، سیاسی لیڈران ہی کرتے ہیں، مگر ان کو لیتے ہوئے وہ فوج، سکیورٹی، انٹیلی جنس ، عدلیہ کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اسکے لیڈروں کی پینترہ بازیاں دیکھ کر بھارت کے معروف دلت لیڈر اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راوامبیڈ کر کا وہ بیان یاد آتا ہے، جو انہوں نے نومبر 1948 کوآئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ’’دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اسکو موثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اگر اچھے سے اچھا آئین بھی نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔‘
‘ پاکستان میں فوج نے اگر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا خیر مقدم کرناچا ہئے۔ مگر پاکستان کے عوام کے لیے بھی لازم ہے کہ فراخ دل، بامروت اور سنجیدہ افراد کا انتخاب کریں، جو ملک کو استحکام کی طرف گامزن کرانے اور بدعنوانی سے کسی حد تک پاک کرانے میں رول ادا کریں۔ ویسے تو پارلیمانی جمہوریت میں بدعنوانی کا عنصر پیدائشی ہی ہے، جس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ اس قدر نہ ہو کہ خزانے ہی خالی ہو جائیں۔ ماضی میں سیاسی پارٹیاں عوامی چندے سے چلتی تھیں، جس سے قدرتی طور پر ان کا احتساب بھی ہوتا تھا۔ مگر اب وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے ؟ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں تو اسکے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں، ایک بڑا سوال ہے؟ میڈیا اسٹڈیزادارے کے سربراہ این بھاسکر رائو کے مطابق 2024کے عام انتخابات میں بھارت میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ یہی حال کچھ پاکستان کا بھی ہوگا۔ جنوبی ایشیاء میں الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے۔یورپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے۔ مگر کسی بھی اصلاح کے لیے عوام اور سیاستدانوں کو اپنے طریقوں اور مزاج میںبدلاو لانے کی ضرورت ہے اور اداروں کے لیے بھی لازم ہے کہ اپنے دائرہ کار کو متعین کرکے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ورنہ آئین یا اصلاحات بس کاغذ کے چند ٹکڑے ہی رہ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔