میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شاہراہ¿ ترقی اوربھارت کے تحفظات(پہلی قسط)

شاہراہ¿ ترقی اوربھارت کے تحفظات(پہلی قسط)

منتظم
جمعرات, ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

iqbal-dewan-copy

محمد اقبال دیوان
تاجران اکبری منڈی لاہور (پٹھا نون لیگ )پٹھا: دیسی کشتی کے پنجابی محاورے میں شاگرد کو کہتے ہیں ) اور قصہ خوانی بازار پشاور (پٹھا اے این پی او رپرویز خٹک )کے باہمی اختلافات سے بہت پرے بھی شاہرا ہ¿ معاشی ترقی و سہولت گوادر کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر کچھ ایسا پھیلاﺅ نہیں سب ہی کو عزیز ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع سے ہٹ کر بھی اس میں بہت نازک مقام آتے ہیں۔
ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کے ان چھوٹوں بڑوں تک جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جن کی انگریزی رسائل اور میڈیا سے فہم و رغبت کم کم ہے ، اس اکثریت کی اس حوالے سے اعانت ہوجائے۔ میڈیا صبح شام ، کچھ قابل فہم تفصیلات بتائے بغیر مغز کھاتا رہتا ہے ۔اس لیے اس منصوبے میں پاکستان کی دلچسپی ،بھارت کی اس پراجیکٹ سے خصوصی مخاصمت اور جنوبی چائنا سمندر میں چین کی حد سے زائد دلچسپی کی وجوہات سادہ الفاظ میں بیان کرنا ضروری ہے۔
چین کے صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر سے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تک کا یہ منصوبہ تین ہزار میل لمبا ایک کاریڈور (راہداری) ہے۔پاکستان میں46 بلین ڈالر کے خطیر اخراجات کا یہ منصوبہ ان کے عظیم پروگرام OBOR(One Belt One Road )کا ایک حصہ ہے ۔وہ اسے Made in China 2025 کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ایک عالم میں اس وقت برآمدات کے حوالے سے جو کساد بازاری economic slowdown وقوع پذیر ہے اس نے چین کی برآمدات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ان کا پچھلے تیس برسوں میں جمع شدہ سرمایہ اور ان کی اضافی افرادی قوت ان دنوں اپنی پیداوری صلاحیت سے بہت نیچے مصروف کار دکھائی دیتی ہے۔ان کے تین بڑے مغربی صوبے سی چوان، گین سو،اور یونان (Yunnan) بھی مشرقی چین کے باقی علاقوں سے بہت پسماندہ رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ چین میں جو مسلمان ہیں وہ ان کے شمالی مغربی صوبے سنکیانگ کے یوغور مسلمان ہیں جن میں غربت کی وجہ سے شدید احساس محرومی جنم لے چکا ہے۔چین کو مشرقی ترکمانستان میں ایک بڑی مزاحمتی تحریک The East Turkestan Islamic Movement (ETIM کا سامنا ہے ۔جس کے بارے میں وہاں یہ شبہ عام ہے کہ مغربی قوتیں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔سی پیک وہاں پائے جانے والے وسائل کی روشنی میں ایک ایسی صنعتی تحریک کو فروغ دے گا جو ان کی غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ چین کی 94 فیصد آبادی ان کے مشرقی صوبوں میں رہتی ہے جہاں صنعتی ترقی کی بہتات ہے۔6فیصد آبادی مغربی چین میں رہتی ہے جو رقبے کے حساب سے مشرقی چین سے تین گنا بڑا اور دولت کی تقسیم کے حساب سے کئی سو برس پیچھے ہے۔
چین کی پاکستان میں یہ سرمایہ کاری امریکاکی سابقہ سرمایہ کاری سے گو بہت کم ہے لیکن بہت بامقصدہے ۔اور یہ کس کے لیے بامقصد ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے ۔مثلاً امریکا نے پچھلے تیرہ برسوں میں 31.1 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ 10.5 بلین ڈالر تو معاشی امداد تھی 7.6 بلین ڈالر دفاعی مد میں تھی اور 13 بلین ڈالر دہشت گردی کے خاتمے کی مد میں دی گئی۔ بلین میں نو صفر ہوتے ہیں یوں یہ رقم دم تحریر کچھ ایسے دکھائی دیتی ہے 31.100,000,000ڈالر۔ اور اگر آپ ڈالر کو سو روپے سے ضرب دیں تو یہ رقم مزید دو صفر کے اضافے سے 31.100,000,00000 روپے بنتی ہے۔غور سے دیکھیں اس رقم کے ثمرات آپ کو اگر اپنے ارد گرد نہیں دکھائی دیتے ہیں تو یہ باہر کہیں جاکر اہم افراد کے خفیہ اکاﺅنٹس میں منتقل ہوگئی ہے۔
امریکا اس معاملے میں کیوں غفلت شعار ہے ۔یہ ایک اور موضوع ہے ،پرانے سندھی کہتے تھے کہ دشمنوں کے بچوں کو دو پیسے دے کر خراب کیا کریں۔ نائن الیون کے بعد ایک دم سے خزانے کا منہ کھلا تو معاملہ وہی ہوا جو دکھائی دیتا ہے کہ آنے والی امداد سیاست میں شرافت کی مانند ہوگئی کہ دکھائی ہی نہیں دیتی۔
نائن الیون کے وقت امریکی وزیر دفاع کولن پاﺅل اور پاکستان کے فولادی جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعاون کی شرائط پیش کرنے کا نازک مرحلہ تھا۔وھائٹ ہاﺅس میں بحث ہوئی کہ جنرل بے اعتبار کو تعاون کا فون ان کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کریں یا باوردی درست جنرل کولن پاﺅل۔کونڈا لیزا رائس نے یہ کہہ کر دامن چھڑایا کہ وہ اس موضوع پر ذرا سخت گیر گفتگو کر بیٹھیں گی اور جنرل صاحب سجیلے گھوڑے کی طرح بدک جائیں گے ۔ نرم گفتار اور ہم پیشہ کولن پاﺅل آغاز کریں وہ وہاں موجود رہیں گی۔ضرورت پڑنے پر Whip Cracking کے لیے میدان میں کود جائیں گی۔حکمت عملی یہ رکھیں کہ اصلی تین شرائط کو باقی سات شرائط میں خلط ملط کرکے پیش کریں۔ اصلی والی دو بھی مان لیں تو بہت ہیں۔دوسری طرف جب مرد آہن نے ان شرائط کو سنا تو امراﺅ جان کی طرح کندھوں کی کمان کے وسط سے ہاتھوں کی پیالی بناکر ادائے دلبری سے کہا
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجےے
بس ڈالروں کی برسات کردیں۔حضرت نے قوم کا دھیلے کا بھی خیال نہ کیا۔اس کے برعکس جب اسرائیل سے 1973ءکی جنگ کے بعد مصر کے صدر انور السادات کو کیمپ ڈیوڈ میں امریکا کے دباﺅ پر امن معاہدے کے لیے بیٹھنا پڑا تو انہوں نے امریکا سے پانچ مطالبات منوائے۔
۱۔ وہ تمام علاقہ جو اسرائیل کے قبضے میں ہے حتی کہ غزہ پٹی بھی وہ مصر کو لوٹا دیے جائےں۔اسرائیلی افواج سو کلو میٹر سے بھی زیادہ مصر کے اندر گھس آئیں تھیں۔
۲۔ مصر کے تمام ذمے آج تک کے قرضے معاف کیے جائیں۔
۳۔مصر کے جنگی ساز و سامان کو دوبارہ جدید بنادیا جائے۔
۴۔سوئز کنال سے گزرنے کا ٹیکس جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے مصر کو دوگنا کرنے کی اجازت دی جائے۔
۵۔امریکا چار بہترین جامعات مصر میں قائم کرے اور مصری نوجوانوں کو امریکاکا ویزہ دینے میں بے حد نرمی کی جائے۔
ہمارے جنرل صاحب نادان تھے چند ہی کلیوں پر قناعت کرگئے۔
امریکانے اپنی امداد میں انفرا اسٹرکچر اور ریسرچ اور تعلیم کی کوئی شق اس لیے شامل نہ کی کہ بدمست جنرل کو ہوش نہ خبر تھی کہ اقوام کیسے بنتی ہیں۔ غیر ملکی طاقتوں کو کرپٹ، اخلاقی طور پرکمزور عاقبت نااندیش حکمران مسلم ممالک میں بہت اچھے لگتے ہیں ۔سو پاکستان میں ضیا الحق کے دور سے آج تک آنے والی امداد کا یہی حال ہے کہ یہ ذاتی جیبوں میں زیادہ اور ملکی مفاد میں کم صرف ہوتی ہے۔
پیارا چین چالاک ہے۔پاکستانیوں کے چمتکار سے نہ سہی مگر اپنے مفادات سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ اپنی معاشی ترقی کے لیے پاکستان میں ہی ا ن اخراجات سے مختلف Launching Pads بنا رہا ہے۔ جس میں گوادر میں ائیر پورٹ اور فری زون کی بندرگاہ، پورٹ قاسم کراچی پر قطر کی کمپنی المقرب کی شراکت سے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کا ایک منصوبہ،تھر سندھ،ساہیوال۔ پنجاب اور مظفر آباد آزاد کشمیر میں بھی ایسے ہی منصوبے،تھر پارکر میں پاکستان کی ایک نجی کمپنی اور سندھ حکومت کی شراکت سے کوئلہ نکالنے اور اس سے بجلی پیدا کرنے کے تین منصوبے،بھاولپور میں شمسی توانائی کا ایک منصوبہ اوردیگر دو منصوبے اس میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ سڑکوں ، سرنگوں ،ریل پٹری اور پلوں کا پاکستانیوں کے پسندیدہ محاورے میں ایک جال بچھادیا جائے گا۔ اس امداد میں کتنا قرضہ ہے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا مگر بعض پروجیکٹس میں وہ پاکستان کو بھی وزن اٹھانے کے لیے بطور دوسرے بیل کے گاڑی میں جوت چکا ہے۔
اب آیئے بھارت میں اس مدعے پرکیا گہرے ’وچار ©‘پائے جاتے ہیں ان کا احاطہ کریں۔
بھارت میں اس حوالے سے دو اہم نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ پہلا نقطہ¿ نظر پاکستان میں کم کم سنا جاتا ہے۔ یہ ان کی Deep State سے جڑے ان بلا کے ذہین افراد کا ہے۔ وہ اس منصوبے کی بلا رکاوٹ تکمیل کے بالکل ویسے ہی حامی ہیں جیسے گاندھی جی قیام پاکستان کے اپنے آخری برسوں میں تھے۔گاندھی جی نے مسلمانوں کے ایک علیحدہ دیش بنانے کی تحریک کی مزاحمت اس وقت ترک کی جب جمعیت علمائے ہند کے علماءنے قیام پاکستان کی مخالفت شروع کی، ابوالکلا م آزاد اور کانگریس سے جڑے علما یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے قیام سے بھارت میں مسلمانوں کی شمال کے جانب سے افواج کی آمد اور دہلی پر حکمرانی کے امکانات یکسر ختم ہوجائیں گے۔ بھارت سے مسلمانوں کی پاکستان ہجرت مسلمانوں کو ایک غیر موثر اقلیت میں بدل دے گی۔وہ جمہوریت میں’ ایک فرد۔ ایک ووٹ‘ کے اصول کے تحت بھارت پر حکمرانی کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔پاکستان ایک Buffer State بن کر وسطی ایشیا سے مسلمان لشکر کی آمد کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا۔یہی افکار طالبان کے بھی ہیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر بھارت میں براہ راست کارروائی کی راہ میں پاکستانی تحفظات کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ گاندھی جی نے اسی خیال کو سامنے رکھ کر پاکستان کے قیام کی مخالفت کو نرم لہجہ عطا کیا۔
بھارت کی Deep -Stateسے وابستہ یہ بلا کے زیرک افراد (جنہیں ہم اختصار کی سہولت کی خاطر الفا گروپ کہیں گے) یہ کہتے ہیں کہ چین نے بھارت سے1962 کی جنگ کے بعد سے کوئی مہا یُدھ ( بڑی جنگ) نہیں کی۔
چین کے چیئرمین ماﺅزے تنگ سے لے کر موجودہ سربراہ صدر ژی جن پنگ تک سنگاپور کے بابائے قوم لی۔ کوان۔ یو کی بہت عزت کرتے رہے ہیں اورکیوں نہ کریں ؟ان کے بارے میں کسنجر،ریگن،بڑے بش ،کلنٹن اور ان کی اہلیہ اور متوقع صدر ہیلری کی متفقہ رائے یہ تھی کہ سنگاپور کے صدر لی کوان یو کے ساتھ آدھے گھنٹے کی ملاقات ہارورڈ یونی ورسٹی کی ڈگری پر بھاری ہوتی ہے۔یاد رکھیے یہ نہ کوئی معمولی افراد ہیں نہ ہارورڈ یونی ورسٹی کا معیار گومل یا وفاقی اردو یونی ورسٹی جیسا ہے۔لی۔ کوان۔ یو کو مغربی دنیا کا سب سے من پسند ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔مصنف Ezra Vogel نے چینی صدر Deng Xiaoping کی سوانح میں لکھا ہے کہ لی ۔کوان ۔ یو کو اگر جدید چین کا اصل معمار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ماﺅزے تنگ کی وفات کے بعد چین کے لیے دو راستے تھے کہ مغربی جمہوریت کو اپنا کر فری مارکیٹ کھول دے، یا لی ۔کوان ۔ یو کا طرز حکمرانی اپنائے، جدیدیت، معاشی ترقی مگر محدود جمہوریت۔چین کے بے شمار افسر اس ماڈل کے مطالعے کے لیے سنگاپور آتے رہے اور خود لی۔کوان ۔ یو نے بھی چین کا تیس سے زائد مرتبہ دورہ کیا۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں