میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کے بجائے فریقین سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کریں

جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کے بجائے فریقین سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کریں

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم اور ان کے خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں دوسری سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو موقع دینا تھا، ‘وزیراعظم کو پورا موقع دیا گیا لیکن انھوں نے کوئی چیز نہیں دی، ان سے لندن فلیٹس کا پوچھا گیا تو انھوں نے کہا معلوم نہیں، شاید حسن (نواز) مالک ہے، انھوں نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کیا، وزیراعظم نے تمام سوالات کے جواب نفی میں دیے، سوچ یہ تھی کہ کچھ تسلیم نہیں کرنا، کچھ نہیں بتانا، جے آئی ٹی خود کرے جو بھی کرنا ہے’۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ شریف فیملی آپس میں بہت قریب ہے، ہر چیز کا فیملی ممبران کو معلوم ہوتا ہے، وزیراعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے لیکن علم نہیں کہ کس کے ہیں، جن فلیٹس میں ان کے بچے 1993 سے رہ رہے ہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہونے کا کہا گیا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی پر اعتراض ہے تو اعتراض کے ساتھ ثبوت لگائیں۔جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ وزیراعظم اور دوسرے فریقین آزادی سے اپنا موقف پیش کرسکیں اور ثبوت دے سکیں، وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ جے آئی ٹی میں بری الذمہ ہوتے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اثاثوں کو تسلیم کیا گیا، اب دو ہی معاملات ہیں کہ یا تو ہم دیکھیں یا احتساب عدالت۔ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کردیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے بجا طور پرریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی اگر کسی خفیہ جائیداد کی نشاندہی کرتی ہے تو یہ غلط نہیںہے؟ وزیراعظم کے وکیل سے جسٹس اعجاز افضل کا سوال برمحل ہے کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فریقین کے تمام اثاثوں کی چھان بین نہیں ہوسکتی؟ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، 13 سوالوں کی بنیاد پر ان کی پڑتال دوبارہ نہیں ہوسکتی جبکہ فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہو تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی واضح کیا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس پر پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہے، بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ رقم کہاں سے آئی، اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ حدیبیہ کیس کو شامل کرنا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کو کرنا ہے۔انھوں نے کہاکہ عدالت فیصلہ اْس وقت کرتی ہے جب حقائق غیر متنازع ہوں، اس مرحلہ پر رپورٹ کے کسی حصہ پر فیصلہ نہیں دے سکتے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنی تجاویز اور سفارشات دے سکتی تھی، جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں، فیصلہ عدالت کو کرنا ہے اور عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنا ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 184/ 3 کے تحت جے آئی ٹی کو نہیں عدالت کو فیصلہ کرنا ہے۔
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلہ کے تحت اکثریتی رائے کے ساتھ حکمران شریف خاندان کے اثاثہ جات اور آف شور کمپنیوں کے معاملہ کی مزید تحقیقات کے لیے ریاست کے پانچ اداروں کے نمائندگان پر مبنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم مقرر کی اور متعلقہ ادارے بھی خود نامزد کیے جن میں پاک فوج سے متعلق دو ادارے آئی ایس آئی اور ایم آئی بھی شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے جو ذمہ داری تفویض کی اس نے سپریم کورٹ ہی کے متعینہ وقت کے اندر وہ ذمہ داری ادا کرکے اس ماہ 9 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کردی۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل پر تو مٹھائیاں تقسیم کیں اور خوشی و اطمینان کا اظہار کیا تاہم جب حکمران خاندان کے ارکان کی جے آئی ٹی میں پیشی کا سلسلہ شروع ہوا تو حکمران جماعت کے عہدیدار ہی نہیں‘ حکمران خاندان کے ارکان کی جانب سے بھی جے آئی ٹی بالخصوص اس کے دو ارکان پر جو آئی ایس آئی اور ایم آئی کی نمائندگی کررہے تھے‘ تحفظات کے اظہار کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ پھر تحفظات کے اظہار میں تلخی کا عنصر بھی شامل ہونے لگا اور جے آئی ٹی کے ارکان کی ذات بھی کڑی تنقید کی زد میں آنے لگی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد تو حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور عہدیدار بشمول وفاقی وزرا اور حکومتی حلیف جماعتوں کے قائدین کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل‘ اس کی کارروائی اور رپورٹ کو ایک منظم سازش سے تعبیر کیا جانے لگا۔ خواجہ سعدرفیق اور دوسرے وفاقی وزرا کے بقول یہ سازش ملک سے باہر تیار ہوئی جس کے تحت ملک کے اندر جے آئی ٹی کا مبینہ طور پر ڈراما فلمایا گیا جس میں عمران خان نے مرکزی کردار ادا کیا۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس نوعیت کے الزامات جے آئی ٹی کی مخالفانہ رپورٹ کے تناظر میں ہی سامنے آئے۔ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ حکمران خاندان کے موافق ہوتی تو اس پر حکمران مسلم لیگ (ن) کی جانب سے امکانی طور پر مٹھائیاں بانٹنے کے عمل کی ہی توثیق کی جاتی جبکہ اسکے برعکس رپورٹ آنے پر جے آئی ٹی کی تشکیل کو سازش قرار دے کر بالواسطہ اس کا ملبہ قومی ریاستی اداروں‘ فوج اور عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عدالت عظمیٰ میں تو چونکہ اب جے آئی ٹی کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوچکی ہے اس لیے سماعت کے دوران جے آئی ٹی پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے بھی وضاحتیں طلب اور پیش کی جاتی رہیں گی جیسا کہ گزشتہ روز فاضل عدالت عظمیٰ کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلہ کے تحت خود تشکیل دیا ہے جبکہ اسکی رپورٹ پر من و عن عملدرآمد کے ہم قطعاً پابند نہیں۔ اصولی طور پر تو تمام فریقین کو سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت مکمل ہونے کا انتظار کرنا چاہیے اور پہلے کی طرح عدالت کے باہر اپنی عدالت لگانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس کیس کا منطقی انجام بہرصورت سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت ہی ہونا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حکمران خاندان کے موافق یا مخالف آنے کی ہر دو صورتوں میں جے آئی ٹی کو تنقید کا نشانا بننا تھا۔ اگر رپورٹ موافق آتی تو جے آئی ٹی پر مدعی پارٹیوں کی جانب سے حکمران خاندان سے رعایت کا الزام لگتا اور مخالف رپورٹ آنے کی صورت میں جے آئی ٹی مدعا علیہ حکمران خاندان کی ویسے ہی تنقید کی زد میں ہوتی جیسا کہ اس وقت اسے اپنی تشکیل کے حوالے سے سازشی تھیوری والے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ سے بحث مباحثہ کے ’’فلڈگیٹ‘‘ کھل گئے ہیں تو ہر کوئی اسکی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد مخدوم جاوید ہاشمی نے سیاست دانوں‘ ججوں اور جرنیلوں سمیت سب سے احتساب کا تقاضا کیا اور اس سلسلہ میں بعض سوالات بھی اٹھائے جبکہ اب حکومتی حلیف نیشنل پارٹی کے سربراہ میرحاصل بزنجو نے آئین کی دفعہ 63,، 62 کا پنڈورا بکس کھولتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ان آئینی دفعات کی بات ہوگی تو سیاست دان‘ جج‘ جرنیل سب نااہل ہونگے۔
یہ بحث آگے بڑھے گی تو ہر قومی ریاستی ادارے کے سربراہ کو خود یا اپنے ترجمان کے ذریعے اپنے معاملہ کی وضاحت پیش کرنا پڑیگی جیسے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصورعلی شاہ نے گزشتہ ہفتے اپنے اثاثہ جات اور ادا شدہ ٹیکسوں کے حوالے سے اپنے معاملہ کی ازخود وضاحت کی ہے۔ اگر جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ہر قومی ریاستی ادارے میں کتھارسس اور خوداحتسابی کا عمل ازخود شروع ہوتا ہے تو اس رپورٹ پر کسی قسم کے تحفظات کے اظہار یا جے آئی ٹی کے حوالے سے اپنے معاملات کی وضاحتوں کے بجائے اسے خوش آئند قرار دیا جائے اور سب کے بے لاگ احتساب کے عمل کو خوش آمدید کہا جائے تو اس سے ہمارے معاشرے میں پیدا ہونیوالا بگاڑ دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور سسٹم کی گاڑی بھی اصل ٹریک پر آسکتی ہے جس کے اس وقت ٹریک سے اترنے کے سنگین خطرات لاحق نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حالات میں ملک کو پائیدار امن و استحکام کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج ملک پر طاری سیاسی غیریقینی کی فضا کے باعث قومی معیشت کو سخت دھچکے لگ رہے ہیں ۔ ان حالات میں یقیناً بیرونی سرمایہ کاری کی فضا بھی سازگار نہیں رہ سکتی کیونکہ جے آئی ٹی رپورٹ پر شروع ہونے والے بلیم گیم کا ملک سے باہر پاکستان کے تشخص پر کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہورہا۔ اگر آج جے آئی ٹی کیس میں سپریم کورٹ کی کارروائی اورفیصلے کاانتظار کرلیا جائے تو یہی ملک‘ آئین اور سسٹم کے حق میں بہتر ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں