میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کچہری نامہ (٤)

کچہری نامہ (٤)

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

زریں اختر

منصف ِاعلیٰ کو سلام
کرمنل کورٹ وہی نقشہ پیش کررہی تھی جو کسی نظرانداز سرکاری ادارے کا ہوسکتاہے ۔ چھت کی استر کاری ہوچکی تھی ،چونا نہیں پھرا تھا۔ جج صاحب کا چیمبرکمرئہ عدالت کے ساتھ موجودتنگ بالکنی میں تھا ۔ صفائی کے انتظام کی بابت عرض ہے کہ روز جھاڑو پونچھا ہوجاتا ہوگا، کرسی اور میز کی گرد بھی صاف کر دی جاتی ہوگی اور شاید کبھی جالے بھی جھاڑ دیے جاتے ہوں ۔ وقت کی گرد سے اٹی فائلوں کا انباراپنی جگہ موجود تھا ۔ سائل ان سب سے دل برداشتہ نہ ہو، دل برداشتگی کے اور بھی معاملات ہیں ،مثلاًپیش کار کا روّیہ جنہیں کہنے والے جج کی آنکھیں اور کان قرار دیتے ہیں ، اگر فریادی کو لگے کہ اس سے کیسے نمٹیں؟ یوں سمجھیں کہ یہ کورٹ کی فضامیں گردش میں رہتی افواہیں ہیںوگرنہ جج اپنی آنکھیں اور اپنے کان رکھتے ہیں۔ جب جج کمرئہ عدالت میں اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا عدالت لگ گئی ،یہ دیواریں اور چھتیں کوئی مقام نہیں رکھتیں، مقام عدالت ہے، جہاں عدل کیا جاتاہے ،عدل عادل منصف کرتاہے ، پورا نظام ایک طرف کردیں جس میں پولیس اور وکیل بھی شامل ہیں، عدالت ”منصف ” کا دوسرا نام ہے بلکہ’منصف” ہی عدالت ہے، جہاں قاضی بیٹھ گیا وہیں عدالت لگ گئی اور کوئی اس جملے کا تمسخر نہیں اڑاسکتا۔
عدالت لگ چکی تھی ، کاروائی شروع ہونے جارہی تھی ۔ جج صاحب کے دائیں طرف کمپیوٹر آپریٹر اور بائیں جانب پیش کار ، لکڑی کے جنگلے کے ساتھ میز جس پر وکلاء اپنی فائلیں رکھتے ہیں اور میز کے اس طرف وکیل ، مقدمہ کی نوعیت کے اعتبار سے ایک خاتون سرکار ی وکیل بھی موجود تھیں ،ایک طرف پولیس اہلکار کے ساتھ ہتھکڑی میں ملزم کھڑا تھا ۔ مدعی ایک عورت تھی جس کا بیان ریکارڈ ہونا تھا۔ عدالت میں عورت کا بیٹا بھی تھا ، جج صاحب کے آنے سے پہلے میں نے اسے کہتے سنا کہ ‘امی ! وکیل صاحب فون نہیں اٹھارہے’۔عورت کا بیان شروع ہونے کے بعد اس کے وکیل تشریف لائے ۔ یہ ایک بھاری جسم کے سینئر وکیل تھے ،اپنے حال سے لاپرواہ ، وکلاء کا لباس تو زیب تن تھا لیکن سفید قمیص کا کالراور کف میلے تھے ۔
یہ کہا اور سمجھا جاتاہے کہ عدالت کی کاروائی تحریر ی ثبوتوںاور شہادتوں پر چلتی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ایسا ہے نہیں لیکن ۔۔۔اس کارروائی کا احوال سنیں ۔ جیسے ہی عورت کا بیان مکمل ہوا ، جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ ”مسئلہ حل کریں”۔ پھر جج صاحب نے ملزم کو براہ راست مخاطب کرکے کہا کہ ” اور آپ سے بھی کہہ رہاہوں ،مسئلہ حل کریں۔”
ابھی بیان ریکارڈ ہوا ہے اگرچہ کہ عورت بھی اپنے بیان میں دہراتی رہی کہ اس کا ثبوت ہے ،معاہدہ موجود ہے ، وغیرہ ، سرکاری وکیل کی موجودگی بھی ثابت کرتی ہے کہ عورت اپنے بیان میں جوکہہ رہی ہے وہ درست ہوگا۔ لیکن جج کا عورت کا بیان مکمل ہونے کے ساتھ ہی یہ فوری ردعمل کے مسئلہ حل کرائیں، کیا ثابت کرتاہے؟ جج کا تجربہ ، مشاہدہ ، فراست ، حکمت اور نیک نیتی ۔اس کے بعد کیوں کہ عور ت کے وکیل بعد میں عدالت پہنچے تھے ، انہوں نے ملزم کے کردارپر ایک جذباتی تقریر کی، میں نے دیکھا کہ خود وہ عورت اپنے وکیل کو حیران
نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ یقینا اس عورت کو اپنے وکیل سے کمرئہ عدالت میں کسی سیاسی جلسے نما تقریرکی نہیں بلکہ حقائق پیش کرنے کی توقع ہوگی جو وکیل کا اصل کام ہے لیکن یہاں تو ۔۔۔میرا نہیں خیال کہ وہ دن اس عورت کے لیے برا دن تھا،ماسوا اس بے ہودہ تقریر کے۔
اس دن کے بعد میری نظریں اس عورت کو عدالت میں ڈھونڈتی تھیں اورپھر ایک روز وہ کمرئہ عدالت میں مجھے دکھائی دی، آج اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ملزم باہر موجود تھا اس کا وکیل نہیں تھا، عورت کا وکیل تھا۔ ملزم کی طرف سے ضمانت کی درخواست جمع کرائی گئی تھی ۔ جج صاحب کمرئہ عدالت میں موجود نہیں تھے ، وہ عورت ایک صفحے پر کچھ لکھ رہی تھی ،اس کے چہرے کے تاثرات تنے ہوئے تھے ، کہیں کہیں افسردگی کی جھلک نظر آتی، میرے اندر سے آواز آئی کہ یہ عورت ہار ماننے والی نہیں ہے لیکن یہ لکھ کیا رہی ہے؟ میرا تجسس بڑھا ،مجھے جاننا تھا کہ مقدمہ کیا رخ اختیار کرنے جارہا ہے ؟اور پھر جو رخ سامنے آیا۔۔۔ وہ اس عورت کا وکیل تھا جو جج کے سامنے ملزم کی ضمانت کی درخواست کی حمایت میں کھڑا تھا۔وہ وکیل صاحب جنہوں نے اپنی موکلہ کا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ایک بے موقع اور بے تکی تقریر جھاڑی تھی آج عدالت میں ملزم کی ضمانت کی درخواست کررہے تھے، ان کا موقف تھا کہ ملزم کا کہنا ہے کہ وہ جیل سے باہر آکرہی پیسوں کا بندوبست کرسکتاہے ۔ اب جج صاحب اس عورت سے مخاطب ہوئے کہ آپ کیا کہتی ہیں؟ عورت نے کہا کہ وہ ملزم کو عدالتی نوٹس کے بعد بھی ایک سال کاوقت دے چکی ہے، ملزم کی گرفتاری کی رات جب وہ تھانے سے گھر پہنچی تو فجر کی اذانیں ہورہی تھیں، وہاں یہی کوشش کی جارہی تھی کہ مسئلہ حل ہوجائے ۔ اگر یہ جیل سے چھوٹ گیا تو دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔’ جج صاحب نے عورت کے وکیل کو جو اس وقت ملزم کی وکالت کر رہے تھے مخاطب ہو کرکے کہاکہ ”آپ کچھ اور بات کر رہے ہیں ،یہ کچھ اور کہہ رہی ہیں۔” جج صاحب نے ملزم کی ضمانت کی درخواست رد کر دی۔ عورت نے جج صاحب کا شکریہ اداکیااور تیزی سے کمرئہ عدالت سے نکل گئی ۔ میں اس کے پیچھے گئی ، وہ غم و غصے کی کیفیت میں تھی ، اطراف سے بے پرواہ ، اس نے ملزم کو احاطے میں جالیا اور کہا کہ ”اپنے بچوں اور بیٹی کی خاطر رہی سہی عزت بچانے کی فکر کر،میں تمہاری ضمانت نہیں ہونے دوں گی ”۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا وکیل اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا ، عورت نے کہا اس کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے ، وکیل نے کہا کہ نہیں ہوگی ۔یہ وہ وکیل کہہ رہا تھا جو خود ملزم کی طرف سے ضمانت کی درخواست کا دفاع کررہاتھا، ضمانت کی درخواست تو جج صاحب نے منظور نہیں کی ۔یہ وکیل بکائو تھا ،وہ جج نہیں۔
_______________________________________________________________________________________________


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں