کلبھوشن کا معاملہ،ناتجربہ کار ٹیم، کمزور دلائل
شیئر کریں
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد روکے جانے کے حکم کے بعد اب اس حوالے سے تجزیہ کاروںاور سیاستدانوں کے تبصروںکا سلسلہ جاری ہے ،گویا ٹی وی چینلز کو ایک نیا منجن مل گیاہے جو مختلف انداز سے بیچنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس دوران ایسے ایسے لوگوں کی رائے نشر کی جارہی ہے جو عام حالات سیشن عدالت کے فیصلوں پر بھی رائے زنی کے قابل تصور نہ کیے جاتے ،تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کے تجزیہ کاروں اور ماہر قانون دانوں کوششدر کردیا ہے اور ان سب ہی نے اس پر حیرانی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف حکم امتناع جاری کیے جانے سے قبل پاکستانی تجزیہ کار پر اعتماد تھے کہ آئی سی جے کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا اختیار نہیں رکھتا ،تاہم حکم امتناع سامنے آنے کے بعد اب ماہر قانون دان اس بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کے حوالے سے پاکستانی وکلا کی جانب سے دیے جانے والے دلائل کمزور اور نقصان دہ تھے۔
معروف قانون داں جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حیران کن ہے کیوں کہ ’آئی سی جے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے آئی سی جے میں پیش ہوکر غلطی کی، ’ اب جب تک آئی سی جے اپنا فیصلہ نہیں دیتی، یہ کیس پاکستان میں چلتا رہے گا البتہ کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ عدالت نے حکم امتناع دے دیا ہے‘۔واضح رہے کہ ’کلبھوشن پر مقدمہ چلانے والے فیڈرل جنرل کورٹ مارشل نے سزا کے خلاف اپیل کے لیے 40 روز کی مہلت دی تھی جو ختم ہونے والی ہے البتہ اگر عدالت چاہے تو اپیل کی مدت بڑھا سکتی ہے‘۔
انگریزی جریدے ہیرالڈ کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگر چہ دنیا کاکوئی بھی ملک عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں پر عمل درآمد کا پابند نہیں ہوتایہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو امریکا سمیت کئی ممالک نہیں مانتے، تاہم بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ان کا یہ کہنابھی اپنی جگہ درست ہے کہ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عالمی عدالت انصاف نے بھارت کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدالت نے ابھی محض پھانسی پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا ہے اور پاکستان کے دائرہ اختیار کے اعتراض کو مسترد کیا ہے۔
اس حوالے سے ہم یہ فیصلہ کر سکتے تھے کہ اس مقدمے میں پیش ہی نہ ہوتے اور اپنے اس مؤقف کے تحت کہ عالمی عدالت انصاف کو اس مقدمے کی سماعت کااختیار ہی نہیں ہے۔ عدالت سے غیرحاضر ہو جاتے۔تاہم ماہرین عالمی عدالت کا تفصیلی اور مکمل فیصلہ آنے تک اس بات پر بحث ہوتی رہے گی کہ پاکستان کو آئی سی جے میں جانا چاہیے تھا یا نہیں۔
سینئر صحافی نصرت جاوید کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمارا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہماری بات نہیں مانی گئی تاہم ایسے جاسوسوں سے معلومات نچوڑ کر ایک فریزر میں رکھ دیا جاتا ہے،ہمیں اس سے اس کے نیٹ ورک کے بارے میں جو معلوم کرنا تھا ہم کر چکے ہیں۔ ہمارا کیس مضبوط ہے یہ شخص مسلمان شناخت لے کر پاکستان میں تھا۔تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھارت کو ایڈوانٹیج مل گیا ہے کیوں کہ اب وہ اپنے لوگوں سے کہے گا کہ ہم ہاکستان سے جیت گئے ہیں۔چونکہ کلبھوشن یادیو کے پاس 20 مئی تک آرمی چیف کے پاس اپیل کرنے کا حق ہے، اس لیے اس فیصلے سے پاکستان میں جاری اس کیس پر اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر پاکستان آئی سے جے میں نہ جاتا تو پاکستان کے حق میں بہت بہتر ہوتا۔پاکستان کے قانون دانوں نے جس انداز میں عالمی عدالت میں اس کیس کی پیروی کی اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان عالمی عدالت کاسامنا کرنے کو بالکل تیار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وکلا کو پنے دلائل دینے کے لیے جو 90 منٹ کا وقت ملا تھاپاکستانی وکلا اسے بہتر طریقے سے استعمال نہیںکرسکے۔اس عدالت میں ’پاکستان کے پاس اپنے دلائل پیش کرنے کے لیے 90 منٹ کا وقت تھا لیکن ہمارے وکلانے 40 منٹ ضائع کیے، حیرانی کی بات یہی ہے کہ ہمارے وکلا نے اپنے دلائل جلد مکمل کیوںکیے، پاکستان کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے خاور قریشی کو جتنا وقت دیا گیا تھا انہوں نے وہ پورا وقت استعمال نہیں کیا‘۔
’یہ بات واضح ہے کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 5 بی کے تحت اگر کوئی عام شہری پکڑا جاتا ہے تو اس پر انسانی حقوق کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے البتہ جب بات جاسوس کی ہو تو یہ حقوق نہیں ملتے‘۔اس سلسلے میں قانونی ماہرین کاخیال ہے ’پاکستان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ وہاں اپنا جج مقرر کرتا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا،جس سے اس خیال کوتقویت ملتی ہے کہ پاکستان تیار نہیں تھا،اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمن کا یہ خیال کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ ’ہم نے اپنے کیس میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار کو بنیاد بنایا جو کہ کمزور ثابت ہوا، جاسوسی سے متعلق مزید دلائل دیے جانے چاہیے تھے‘۔ یہ عام بات ہے کہ آئی سی جے نے یہ محسوس کیا کہ یہ کیس ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لہٰذا اس نے سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا،تاہم یہ عالمی عدالت انصاف کے ججوں کا خیال ہے کہ وہ ایسا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور اس پر کوئی تبصرہ کرنا قبل ازوقت ہوگا تاہم یہ حتمی بات نہیں۔ ماضی میں ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ پہلے عدالت حکم امتناع دیتی ہے اور پھر صورتحال کا بغور جائزہ لیتی ہے۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے جانے کافیصلہ ہی کیوں کیا، جب اس کا خیال تھا کہ یہ کیس اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تو اسے اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔اس حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ ’بھارت نے کبھی مسئلہ کشمیر آئی سی جے میں لے جانے پر رضامندی ظاہر نہیں کی تو پھر پاکستان نے کلبھوشن کے معاملے پر آمادگی کیوں ظاہر کی؟‘اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کا مؤقف یہی ہے کہ یہ فیصلہ فطری انصاف کے اصول کی خلاف ورزی ہے اور حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستان کیوں وہاں گیا اور جلد بازی میں اپنا مؤقف بیان کیا‘۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ جو وکلا اس معاملے کی پیروی کررہے تھے انہیںاس طرح کے مقدمات کی پیروی کا کوئی تجربہ نہیںتھا اور انہوں نے اس کے لیے تیاری بھی پوری طرح نہیں کی تھی جس کااندازہ عدالت میں پیش کردہ ان کے دلائل تھے جن میں بھی کوئی وزن نہیں تھا، انہیں معقول طریقے سے اپنا کیس پیش کرنا چاہیے تھا‘۔ اس معاملے کی مزید سماعت کے دوران ہماری قانونی ٹیم کو مزید تیاری کر کے پیش ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تجربہ کار قانونی ٹیم کی ضرورت ہوگی۔