سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!
شیئر کریں
اداریہ
سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی زیر قیادت پاکستان آنے والا سعودی وفد اپنا دو روزہ دورہ مکمل کر کے وطن واپس روانہ ہو چکا ہے جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام نے اس دورے کو ملک کیلئے نتیجہ خیز اور سود مند’ قرار دیا ہے۔دورے کے اختتام پر سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں اس دورے کو ‘مثبت’ قرار دیتے ہوئے معیشت کے حوالے سے کچھ حوصلہ افزا باتیں کیں اور دعویٰ کیا کہ پاکستان معاشی محاذ پر جلد ہی بڑے فوائددیکھے گا۔ سعودی وفد نے پاکستان میں قیام کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع کے متعلق معلومات حاصل کیں ۔سعودی وفد اب واپس جا کر ان شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے بارے میں اپنے فیصلے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کے ممکنہ مواقع کی ایک فہرست دی گئی ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور کچھ منافع کما سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی جانب سے بتائے گئے مواقع میں سے کتنے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش کو قبول کرے گا۔ سعودی عرب اپنی معیشت کو اپنے ویژن 2030 کے تحت خطے میں متنوع بنا نے کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے پاکستان چونکہ اس کا اسٹریٹجک اور سفارتی اتحادی ہے چنانچہ بطور ایک مسلم ملک کے وہ یہاں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔سعودی عرب گزشتہ تین چار دہائیوں سے تیل سے حاصل ہونے والے پیسے سے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اب تک زیادہ تر سرمایہ کاری سعودی عرب کے اندرہی کی جا رہی تھی ،لیکن اب وہ مصر سے لے کر پاکستان تک ایسی منڈیوں کی تلاش میں ہے جہاں وہ نہ صرف اپنا سرمایہ لگا سکے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا سکے۔ سعودی عرب ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے جہاں سے اسے منافع بھی حاصل ہو اور اس کی معیشت اور ا سٹریٹیجک اہمیت کو وسعت ملے۔سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک اور وجہ مشرقی وسطیٰ اور عرب دنیا میں تیزی سے بدلتی جیو پولیٹیکل صورتحال اور کشیدگی بھی ہے۔سعودی عرب کو پاکستان کی دفاعی مدد اور سفارتی حمایت کی ضرورت ہے، اسی لیے یہ سرمایہ کاری نجی شعبے میں نہیں آ رہی بلکہ یہ پیسہ حکومتی منصوبوں کو دیا جا رہا ہے اس سرمایہ کاری سے حکومت کو کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ضرور ملے گی مگر اس سے عام آدمی کو ریلیف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔کیونکہ یہ پیسہ ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ نہیں ہے بلکہ پیسہ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کا پیسہ ہے اور جو سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر کو توازن دیتا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ تاہم خطے کی صورت حال اور کلائمٹ چینج کے تحت صنعتی ممالک کی جانب سے تیل پر انحصار کم کرنے اور توانائی کے متبادل قابل تجدید قدرتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کے فیصلوں کے پیش نظر اب دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر گرمجوشی دیکھی جا رہی ہے اور ایسے میں پاکستان سعودی عرب کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔پاکستان نے اس دورے کے دوران ابتدائی طور پر سعودی وفد کو آئی ٹی، معدنیات، زراعت، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور سعودی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔جبکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اس بات کوتسلیم کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع موجود ہیں اور یہ کہ سرمایہ کاری کونسل پر تفصیلی بریفنگ سے انھیں اعتماد ملا اور پاکستان کی نئی اپروچ پسند آئی ہے۔مگر اس ‘نتیجہ خیز’ اور مثبت قرار دیے جانے والے دورے کے اختتام پر ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس کا جائزہ لیاجائے تو اب تک دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے منصوبوں کے حوالے سے کوئی واضح فریم ورک جاری نہیں کیا گیا ہے۔اس دورے کے بعد یہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں کہ سعودی عرب درحقیقت کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور اس سرمایہ کاری کا حجم کیا ہو گا؟ اور یہ کہ پاکستان جیسی غیر مستحکم اور کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے سعودی عرب کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اب سعودی عرب پاکستان سمیت دیگر دوست ممالک کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہے؟حکام اب تک اس معاملے پر رازداری برت رہے ہیں جس کے باعث مختلف حلقوں کو سوالات اٹھانے اور قیاس آرائیوں کو ہوا دینے کا موقع مل رہاہے ۔ سعودی عرب کن شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا ابھی اس بارے میں کچھ واضح نہیں ہے لیکن شہباز شریف اس دورے کو انتہائی کامیاب ظاہر کرنے کیلئے ابھی سے ایسے بیانات دے رہے جیسے ان منصوبوں پر کام شروع ہورہاہو،مثال کے طورپر ان کا یہ بیان کہ سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے پیش رفت کا وہ خود جائزہ لیں گے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ،سوال یہ ہے کہ جب ابھی تک کسی منصوبے کی نشادہی ہی نہیں ہوئی تو پیش رفت کس میں ہوگی اور شہباز شریف جائزہ کس بات کا لیں گے،اور جب کوئی کام شروع ہی نہیں ہوا تو کوتاہی کیسے ہوسکتی ہے۔ شہباز شریف کے اس طرح کے بیانات کا مقصد دراصل پاکستان کے عوام کو کنفیوز یا گمراہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاک سعودی تعلقات روایتی طور پر دوستانہ رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مسائل پر دونوں برادر ملکوں کا نقطہ نظر تقریباً یکساں رہا ہے۔ یہ تعلقات اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ یہاں مادی اور روحانی زاویے دونوں اہم ہیں۔سعودی عرب میں کعبہ شریف ہمارا قبلہ ہے اور اس وسیع و عریض ملک میں 20 لاکھ پاکستانی بھی کام کرتے ہیں جو قیمتی زرمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ ماضی قریب میں پاک سعودی تعلقات بھی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔ایک عشرہ پہلے جب پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی افواج یمن بھیجے تو اس مسئلے پر پارلیمان میں بحث کے بعد پاکستان نے معذرت کر لی تھی۔یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ پاکستان کی پالیسی ہے کہ وہ عرب تنازعات میں فریق نہیں بنے گا اور ویسے بھی اب یہ فیصلہ صائب نظر آ رہا ہے کیونکہ یمن کی بے سود جنگ سے سعودی عرب خود کنارہ کشی کی کوشش کر رہا ہے۔دوسری بار تناؤ کے لمحات وہ تھے جب پاکستان نے ترکی اور ملائیشیا کی تحریک پر او آئی سی کا سربراہ اجلاس کوالالمپور میں بلانے کی تجویز کی حمایت ظاہر کی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرکے سعودی عرب کو بالواسطہ طورپر یقین دلادیاتھا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دوستی کو دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اہمیت دیتاہے ۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دفاعی تعاون ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی تربیت سے لے کر مشترکہ مشقوں تک دونوں ممالک نے عسکری استعداد کا طویل سفر طے کیا ہے اور یہ تعاون ہنوز جاری ہے۔پاکستانی سپاہی اور افسر اب بھی برادر ملک میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عسکری دستوں کو تب ہی بلایا جاتا ہے جب اس ملک پر 100فیصد اعتبار ہو اور تعلقات کا یہ رخ دونوں ممالک کی قربتوں پر دلالت کرتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس وافر فنڈز ہیں جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے روشن مواقع موجود ہیں۔سرمایہ کاری کی بات کئی سال سے چل رہی ہے لیکن پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے سبب اب تک سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ سرمایہ کار عام طور پر اس ملک کا رخ کرتے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو اور پالیسیوں میں تسلسل پایا جاتا ہو۔سرمایہ کاری کیلئے دوسری چیز منصوبے کو جاذب نظر بنانے کے لیے عالمی سطح کی فیزیبیلیٹی رپورٹ ہوتی ہے جس سے سرمایہ کار پر واضح ہو جاتا ہے کہ منصوبہ فائدہ مند ہو گا یا نہیں۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت پاکستان کا دورہ کرنے والے سرمایہ کاری وفد کو مفصل بریفنگ کے علاوہ پروفیشنل ا سٹینڈرڈ کی فیزیبیلیٹی رپورٹس بھی دی گئیں اور وزیر اعظم نے وفد کو بتایا کہ اس مرتبہ ہم نے عالمی ماہرین کے مشورے سے فیزیبیلیٹی رپورٹس تیار کی ہیں۔ وفد کے دورے میں سرمایہ کاری کے لیے 3 شعبوں کی بطور خاص نشاندہی کی گئی ہے اور وہ ہیں زراعت، توانائی اور معدنیات۔ یہ تینوں شعبے غیر ملکی سرمایہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سعودی وفد نے ا سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (سی آئی ایف سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی یہ ایک ون ونڈو آپریشن ہے تاکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو کئی دفتروں کے چکر نہ کاٹنا پڑیں۔
پاکستان اور سعودی عرب مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر یکساں پوزیشن رکھتے ہیں اور اب اسلاموفوبیا کے خلاف مل کر جدوجہد کر رہے ہیں۔ہمارے تعلقات کی دوسری اور بے حد اہم جہت عسکری تعاون ہے۔ تیسری جہت دوطرفہ تجارت ہے جس کو بڑھانے کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں اور یہ توقع پیداہوگئی ہے کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا بلکہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے بیمار سرکاری اداروں کو خریدنے یا شراکت داری کے تحت چلانے پر بھی رضامند ہوجائے گااگر توقع کے مطابق ایسا ہوجاتا ہے تو اب سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، جس سے پاکستان کا گروتھ ریٹ بہتر ہو گا، روزگار کے نئے مواقع کھلیں گے اور برآمدات میں اضافہ ہوگا اور دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔اس حوالے سے ہمارے حکمرانوں کو یہ بنیادی بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سرمایہ کار ان پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو فضا سے آہستہ آہستہ زمین پر اترتے ہیں لیکن بندوق کا ایک فائر ہو جائے تو اس کی آواز سن کر سہم جاتے ہیں اور آناً فاناً اڑ جاتے ہیں۔5 ارب ڈالر کی متوقع سعودی سرمایہ کاری دراصل ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری ہوگی جو 25 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس حوالے سے تجویز کردہ منصوبوں کی حتمی منظوری سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے میں دی جائے گی جو جلد متوقع ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کو باثمر قرار دیا ہے۔وفد میں شامل تمام لوگ سرمایہ کاری کے ٹیکنیکل ایکسپرٹ تھے۔ اس دورے کی کامیابی پاک سعودی تعلقات میں نئے اور خوش آئند باب کی آمد کی دلیل ہے۔اب ہمارا فرض ہے کہ ان منصوبوں کو مکمل شفافیت سے چلائیں اور ان کے لیے سرکاری شعبوں کی طرح من پسند افراد کو نوازنے کے بجائے میرٹ پر سلیکٹ کر کے باصلاحیت ہنرمند ،ایمانداراور محنتی اہلکار لگائیں۔آئل ریفائنری کے علاوہ ہمیں شمسی اور ونڈ ملز کے ذریعے تونائی حاصل کرنے کے منصوبے بھی حتمی شکل میں بیرونی سرمایہ کاروں کے سامنے رکھنا
چاہئیں کیونکہ پوری دنیا کلین انرجی کی جانب رواں دواں ہے۔ برادر ملک سعودی عرب کی پاکستان میں کامیاب سرمایہ کاری سے خلیج اور اس سے باہر دوسرے ممالک کو بھی وطن عزیز میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔اب یہ ہمارے ماہرین کا کام ہے کہ اس سارے عمل کی کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔اس سرمایہ کاری کی بدولت ملک میں بیروزگاری کی شرح میں کمی واقع ہوگی،روزگار کے نئے واقع پیدا ہوںگے اور خودانحصاری کی جانب آگے بڑھنے کاموقع ملے گا۔سعودی وفد کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے۔ دورہ پاکستان سعودیہ اسٹریٹجک و تجارتی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔