بابر اور منصور کی تلاش
شیئر کریں
روہیل اکبر
پاکستان کی مٹی کے اندر چھپے ہوئے خزانے ہمیں دنیا کا امیر ترین ملک بنانے میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں مگر ہمارے آج تک کے حکمرانوں نے ان خزانوں پر توجہ دینے کی بجائے ملکی خزانے کو ہی بے دردی سے لوٹا اور اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد نے انکا بھر پور ساتھ دیا۔ چند دن پہلے محکمہ مائنز اینڈ منرل کے حوالے سے ان کی کارکردگی پر لکھا تو ابھی حال ہی میں تعینات ہونے والے خوبصورت شخصیت کے مالک ملنسار سیکریٹری مائنز اینڈ منرل پنجاب بابر صاحب کا میسج آگیا جس میں انہوں نے ناراضی کا بھی اظہار کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ جو لکھا وہ بھی حقیقت ہے مگر یہ سب ان سے پہلے کے معاملات ہیں۔ میں سیکریٹری صاحب سے معذرت چاہتا ہوں کہ انہیں میرے الفاظ سے تکلیف پہنچی ۔ میرا مقصد ان پر تنقید نہیں بلکہ ان کے محکمے کی خامیوں کی نشاندہی کرنا تھی۔ ویسے تو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اداروں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہیں اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی خوب سمجھتے ہیں کہ کونسا افسر کس ادارے کو موافق بیٹھے گا۔ شاید اسی لیے انہوں نے اس بے لگام محکمہ کو آپ کے سپرد کیا ہے تاکہ اسکا قبلہ بھی درست ہوسکے اور آپ کی ٹیم میں نوجوان جذبوں کے مالک راجہ منصور جیسے افسر بھی ہیں جنکی کاوشوں سے واقعی اس محکمہ سے اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی او ر مجھے معلوم ہے کہ اس کے لیے آپ نے بہت سے اقدامات بھی اٹھا لیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپکی پوری ٹیم اس محکمہ کا پورا گند تو صاف نہیں کرپائے گی مگر آپ نے 50 فیصد کام کرلیا تو آنے والے دنوں میں پاکستان کے دوسرے صوبوں میں اس محکمہ کی کارکردگی کی مثال دی جائیگی کیونکہ پاکستان کے صوبوں میں سب سے زیادہ معدنی ذخائر بلوچستان میں ،کوئلے کے ذخائرسندھ میں اور خیبر پختونخوا جواہرات سے مالا مال ہے، جہاں آج تک ڈھنگ سے کام ہی نہیں کیا گیا۔ ورنہ تو ان علاقوں سے نکلنے والے نگینے ہی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی تھے جبکہ جوہری توانائی کے مقاصد میں استعمال ہونے والے تیل، گیس اور معدنیات کی کان کنی وفاقی حکومت کرتی ہے جہاں صوبوں سے بھی بڑے آرام پرست افسران نوکری کے مزے لے رہے ہیں۔
پنجاب میں کھیوڑہ سالٹ مائنز دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کانیں ہیں جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 160 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیں ۔ ان کانوں سے نمک نکالنے میں لگ بھگ 1000 کارکن کام کرتے ہیں پاکستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، کرومائیٹ، معدنی نمک، باکسائٹ اور کئی دیگر معدنیات سمیت متعدد معدنیات کے وافر ذخائر ہیں جن میں مختلف قسم کی قیمتی اور نیم قیمتی معدنیات بھی ہیں جن کی کان کنی بھی کی جاتی ہے ان میں پیریڈوٹ، ایکوامارین، پکھراج، روبی، زمرد، نایاب زمینی معدنیات باسٹناسائٹ اور زینو ٹائم، اسفینی، ٹورملین، اور کوارٹج کی بہت سی اقسام شامل ہیں جبکہ پنجاب میں کان کنی کی صنعت کی تلاش، ترقی اور ضابطے کے لیے محکمہ مائنز اینڈ منرل ہے جسکا کام صوبے میں معدنی وسائل کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ کان کنی کی سرگرمیوں میں مصروف
مزدوروں کی حفاظت، صحت اور بہبود کے لیے مائنز ایکٹ 1923 کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کی دفعات کے تحت مکمل ذمہ داری ہے۔ یہ محکمہ سی آئی ایم مائنز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کی سربراہی بھی کرتا ہے جو ایکسائز ڈیوٹی آن منرلز لیبر ویلفیئر ایکٹ 1967 کے تحت قائم کی گئی ہے اور اس کے تحت کان کنی کی صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے فلاحی اقدامات کو بڑھانا بھی شامل ہیں کیونکہ پاکستان میں کان کنی ایک خطرناک کام ہے، خاص طور پر کوئلے کی کان کنی کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی سے حفا ظتی طریقہ کار کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، احتیاطی تدابیر پر عمل بھی نہیں کروایا جاتا جس کی وجہ سے مزدور کچھ عرصے بعد بیمار ہونا شروع ہوجاتے ہیں اورکان کنوں کی اکثریت پھیپھڑوں کے مسائل میں گرفتار اور بہت سے لوگ کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر کا شکار ہیں۔ ان مقامات پر موت اور چوٹ کی بنیادی وجوہات چٹانوں سے گرنا، بارودی سرنگوں کے گرنے سے دب جانا اور گرنے والی چٹانوں سے ٹکرانا ہے۔ پنجاب میں اس طرح کے حادثا ت دوسرے صوبوں کی نسبت بہت ہی کم تعداد میں ہوتے ہیں بلوچستان معدنی ذخائر سے بھر پور صوبہ ہے، جہاں سے سوئی گیس پورے ملک کو سپلائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح (ریکوڈک) بلوچستان میں تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں یہ منصوبہ ایک سال میں 350,000 ٹن سے زیادہ تانبا اور 900,000 اونس سونا پیدا کر سکتا ہے۔ ضلع چاغی میں واقع دہت کوہن، نوک کنڈی میں بھی تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ اسی طرح لاہور سے تقریبا 160 کلومیٹر شمال مغرب میں چنیوٹ میں بھی ابتدائی تخمینوں کے مطابق 500 ملین ٹن لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وہاں سے نکالے گئے لوہے کا سوئس اور کینیڈین لیبارٹریوں میں تجربہ کیا گیاتو ان میں سے 60/65 فیصد اعلیٰ درجے کے پائے گئے تھے۔ لوہا پاکستان کے مختلف علاقوں بشمول نوکنڈی، چنیوٹ، کالاباغ سب سے بڑا، ہری پور اور دیگر شمالی علاقہ جات میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً 52 معدنیات کی کان کنی اور پروسیسنگ کی جاتی ہے جبکہ مقامی اور برآمدی مقاصد کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ قیمتی پتھروں کی کان کنی اور پالش کی جاتی ہے اور اس کام کا مرکز خیبر پختون خواہ اور حال ہی میں گلگت بلتستان ہے جہاں ایکٹینولائٹ، ہیسونائٹ، روڈنگائٹ، عقیق، آئیڈوکریس، روٹائل، ایکوامارائن، جیڈائٹ، روبی، ایمیزونائٹ، کنزائٹ، سرپینٹائن، ایزورائٹ، کیانائٹ، اسپیسارٹائن (گارنیٹ)، بیرل، مورگنائٹ، اسپنیل، زمرد، مونوپرگاسیٹ، مونیپراسٹون، ٹوپی, tourmaline, garnet (alamandine), peridot, turquoise, grosular, quartz (citrine and other varieties) اور vesuvianite وغیرہ شامل ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان جواہرات کی برآمد ہونے والی آمدنی 200 ملین ڈالر سے زیادہ ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے کاش ہمارا ایک محکمہ ہی اپنی ذمہ داری پوری کرلیتا تو آج ہم آئی ایم ایف کے سامنے قرضے کی قسط لینے کے لیے ایڑیاں تو نہ رگڑ رہے ہوتے خیر ابھی بھی باقی صوبوں والے بھی بابر اور منصور تلاش کریں تاکہ ترقی کا سفر دوبارہ شروع ہوسکے۔
٭٭٭