میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی پیک پر بھارت کے غیر ضروری اعتراضات کاچین کی جانب سے کرارا جواب

سی پیک پر بھارت کے غیر ضروری اعتراضات کاچین کی جانب سے کرارا جواب

ویب ڈیسک
پیر, ۲۰ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

چین نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے تنازع کا حل نکالنا چاہیے۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چون اینگ نے بیجنگ میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار دینے کے منصوبے پر بھارتی اعتراض سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یہ پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ان ہی علاقوں کے ذریعے دونوں ممالک کو منسلک کرے گا۔ترجمان دفتر خارجہ ہوا چون اینگ کا کہنا تھا کہ کشمیر سے متعلق چین کی پالیسی بااصول اور صاف ہے مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تاریخی مسئلہ ہے، جسے مناسب طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چون اینگ نے واضح طور پر کہا کہ سی پیک منصوبے سے چین کی کشمیر سے متعلق پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔
جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا ہے بھارت اسی وقت سے اس منصوبے کے حوالے سے درد زِہ میں مبتلا ہے اور بھارتی رہنما اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور طاقت اس میں نقائص نکالنے، اس میں چھید کرنے اور مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات ظاہر کرنے میں صرف کررہے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گزشتہ دنوں اپنی تقریر میں پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک)کا نام لیے بغیر اسے بھارت کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے چکے ہیں ،لیکن چین نے بھارتی وزیراعظم کے اس بے بنیاد الزام کے فوری بعد اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے اسے علاقائی امن اور ترقی کا منصوبہ قرار دیاتھا۔
نئی دہلی میں رئیسینا ڈائیلاگ ( Raisina Dialogue) کی افتتاحی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے کہاتھا کہ ملکوں کی ’خودمختاری کی تعظیم علاقائی تعلقات کے لیے نہایت ضروری ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ دو اہم پڑوسی ممالک (جیسے چین اور بھارت) میں تضادات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں، ’تعلقات کو برقرار رکھنے، خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے دونوں ممالک کا حساسیت اور ایک دوسرے کے مفاد و ترجیحات کو اہمیت دینا ضروری ہے‘۔ نریندر مودی کے ان خیالات کے حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک مختلف شعبوں میں ترقی اور تعاون کا ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے اور اس کا مقصد علاقائی امن اور ترقی کو فروغ دینا ہے‘۔بھارتی اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے اس بیان کو ان الفاظ میں نقل کرچکا ہے کہ ’سی پیک کسی تیسرے ملک کو نشانہ نہیں بناتا اور اس سے چین کی کشمیر کے معاملے پر پوزیشن متاثر نہیں ہو گی‘۔تاہم چینی وزارتِ خارجہ کے اس واضح بیان پر بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اگلے ہی روز اس منصوبے کو زیر بحث لاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سی پیک منصوبہ بھارتی علاقے سے گزرتا ہے۔جے شنکر کا دعویٰ تھا کہ ’سی پیک اُس علاقے سے گزرتا ہے جسے ہم اپنے علاقے کے طور پر دیکھتے ہیں، لوگ بھارتی ردعمل کو ضرور سمجھیں گے اور اس بات پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے، انہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے آثار پہلے محسوس نہیں کیے‘۔
بھارتی رہنماﺅں کے اس طرح کے بے سروپا دعووں اور دھمکی آمیز بیانات سے قطع نظر چین اور پاکستان سی پیک کے ترقیاتی کاموں کو تیز کرچکے ہیں،یہ درست ہے کہ اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ آزاد کشمیر سے بھی گزرتا ہے لیکن اس پر بھارت کو کوئی اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا کیونکہ کشمیری اصولی طورپرپاکستان سے الحاق کافیصلہ کرچکے ہیں اور حق خودارادیت ملتے ہی وہ اپنے ووٹوں سے اپنے اس فیصلے کا عملی طورپر بھی اظہار کردیں گے،جیسا کہ چین کی وزارت خارجہ یہ واضح کرچکی ہے کہ یہ منصوبہ دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اس خطے کے تمام ملکوں کو ایک دوسرے سے زیادہ مربوط کرکے تجارت اور نقل وحمل میں آسانیا ں پیدا کرنے کا منصوبہ ہے اور سی پیک کے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین کو خلیجی ممالک تک کاآسان راستہ حاصل ہوجائے گا۔
ہمارے خیال میں بھارتی رہنماﺅں کو اپنے سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکرکے اس خیال سے اتفاق کرنا چاہیے کہ بھارت نے پاکستان اور چین کے ساتھ اپنی غیر ضروری مخاصمت کو اس قدر بڑھااور اپنے اوپر طاری کرلیاہے کہ ’چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں وسعت، بالخصوص کاروبار اور لوگوں کے درمیان روابط، چند سیاسی معاملات میں تضادات کے زیراثر آگئے ہیں تاہم دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی روابط کی حکمت عملی کو نظرانداز نہ کریں۔سیاسی معاملات اور سی پیک سے متعلق بھارتی سیکریٹری خارجہ جے شنکر کا یہ بیان چین اور بھارت دونوں کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارتی رہنماﺅں کو سی پیک پر غیر ضروری اعتراض اٹھانے کے بجائے خود بھی اس منصوبے میں شرکت پر غور کرنا چاہیے تاکہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح بھارت کے عوام بھی اس کے ثمرات سے مستفیض ہوسکیں۔
امید کی جاتی ہے کہ بھارتی رہنما نوشتہ¿ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں گے اور پاکستان اور چین دشمنی میں خود اپنی ترقی اورخوشحالی کی راہیں مسدود کرنے کے بجائے اعتدال پسندی کی راہ اپنانے اور پاکستان کے ساتھ اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ اس خطے کے عوام کو جنگ کے خطرات سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل سکے اورجنگ کی تیاریوں اور دفاع پر ضائع ہونے والے پاکستان اور بھارت کے قیمتی وسائل ان دونوں ملکوں کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور بھوک وبیروزگاری کے خاتمے پر خرچ کیے جاسکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں